بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
الٓمٓ
آیات 1 تا 13 اسرارو معارف راہ حق میں آزمائش : راہ حق میں مصیبت سے گھبرانا درست نہیں کیا لوگوں کا یہ گمان ہے کہ صرف یہ کہ دینے سے کہ ہم مومن ہیں وہ چھوٹ جائیں گے اور ان پر کوئی آزمائش نہ آئے گی یقینا آزمائش ضرور آئے گی بلکہ ان سے پہلی ساری امتوں کو آزمایا گیا اور اللہ نے کھرے اور کھوٹے سچے اور جھوٹے کو الگ الگ ثابت کردیا۔ آج کے مسلمان کا جو خیال ہے کہ کوئی ایسا راستہ ہو کہ اسلام پر بھی کاربند رہا جائے اور کافر بھی ناراض نہ ہوں اور کوئی مصیبت بھی کھڑی نہ کردیں یہ خیال خام ہے جو بھی حق پر عمل پیرا ہوگا اس کی آزمائش ضرور ہوگی ہاں کفار یہ نہ جان لیں کہ وہ برای کر کے اللہ کی گرفت سے بچ جائیں گے ان کی یہ سوچ بالکل غلط اور بری ہے یعنی وہ مغلوب ہوں گے اور دنیا میں بھی انجام کار مومن غالب ہوگا اور آخرت کا عذاب تو یقینی ہے۔ مومن کی زندگی : اور مومن جو وصال الہی کی امید پر زندگی گزارتا ہے کہ کافر کے کیے جو موت کہلاتی ہے اور بہت خوفناک نظر آتی ہے مومن کے لیے حضوری کی گھڑی اور نوید مسرت ہوتی ہے یعنی مومنانہ زندگی یہ ہے کہ اللہ سے ملاقات کے لیے زندہ رہا جائے تو ایسے لوگوں کو یقین کے ساتھ جان لینا چاہیے کہ اللہ کا وعدہ آرہا ہے اور اللہ سب کی بات سننے والا اور سارے حالات جاننے والا ہے۔ مجاہدہ انسان کی ضرورت ہے : اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ دین کے لیے بہت قربان کر رہا ہے اور بہت بڑے مجاہدے سے گزر رہا ہے تو اس کی اپنی ضرورت ہے اور خود اسی کو اس کا فائدہ ملے گا۔ اللہ تو تمام جہانوں سے بےنیاز ہے وہ کسی کی عبادت یا مجاہدے کا محتاج اور ضرورت مند نہیں۔ بلکہ جو لوگ صحیح عقیدہ اختیار کر کے نیک عمل میں بھی کوشاں رہتے ہیں ان سے اگر غلطی ہوگئی یاکمی رہ گئی تو اللہ اپنی رحمت عامہ سے اس کی تلافی فرما کر انہیں ان کے نیک اعمال کا اجر اعمال کی نسبت بہت اعلی عطا فرمائیں گے لہذا مجاہدے سے گھبرانا نہ چاہیے۔ عقیدہ کی اہمیت : اور جہاں تک عقیدے کا تعلق ہے تو اس کی اہمیت اتنی ہے کہ خود اللہ نے والدین سے حسن سلوک کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اگر وہ بھی یہ کہ دیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو یا کفریہ بات جس کا حق ہونا ثابت نہ ہو ماننے کا حکم دیں تو ان کا حکم ماننے سے بھی انکار کردیا جائے اور اے مخاطب ان کی یہ بات ہرگز مت ماننا اس لیے کہ تجھے واپس میری بارگاہ میں لوٹ کر آنا ہے جہاں اللہ کسی سے پوچھنے کا محتاج نہ ہوگا بلکہ آنے والے کو اس کے اعمال کی خبر دی جائے گی۔ اور یقینا جو لوگ نیکی پر کاربند رہے ان کا شمار نیک اور صالح لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ اور کچھ لوگوں کا تو حال ایسا ہے کہ اپنے مسلمان ہونے کا تو اقرار کرتے ہیں مگر اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف پیش آئے تو یا کفار کوئی دباؤ ڈالیں تو گھبرا جاتے ہیں جیسے اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے کہ اس کا نہ تو جواب ہوسکتا ہے اور نہ برداشت کیا جاسکتا ہے مگر یہ کفار سے ڈر کر ان کی بات مان لیتے ہیں۔ اور جب اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے یا کوئی فائدہ نظر آتا ہے تو کہ اٹھتے ہیں کہ ہم بھی تو آپ کے ساتھ ہیں۔ کیا انہیں احساس نہیں کہ اللہ تو سب جہانوں کی مخلوق کے دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے اور یہ بھی کہ مشیت باری اسی جہان میں ایمانداروں اور منافقین کو الگ الگ کر دے گی۔ کفار اسلام کی راہ سے ہٹانے کے کئی حیلے کرتے ہیں جو ان کی طاقت اور رعب میں نہ آئے اسے کہتے ہیں بھئی تم ہماری راہ اختیار کرلو قیامت کو تمہارے گناہوں کا ذمہ ہم لے لیتے ہیں لہکن یہ بہت بڑا جھوٹ ہے وہ ہرگز کسی کا بوجھ نہ بانٹیں گے بلکہ ان کے اپنے کفر کا بوجھ ہی بہت بھاری ہوگا جبکہ دوسروں کو کفر کی دعوت دینے کا بوجھ بھی ان پر لادا جائے گا اور اس جھوٹ کی پرسش ان کے لیے بہت بڑی مصیبت بن جائے گی ۔ کفر کی دعوت کا بوجھ : جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بولتے ہیں یہاں ثابت ہے کہ کفر کی دعوت دینا بھی بہت بڑا کفر ہے اور اگر کوئی عملا کفار کی غلامی پر لوگوں کو آمادہ کرے کہ دنی ا میں نقصان اٹھاؤ گے تو وہ بھی بہت بڑا گناہگار ہے اور کافروں کی غلامی میں انسان نقصان سے بچ نہیں سکتا بلکہ نقصان کے ساتھ ذلت میں بھی پھنس جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو عملا کفر کی غلامی کا مشورہ دیں اور جو سیاستدان یہ کہتے ہیں کہ سود کے بغیر زندہ رہنا محال ہے یا اسلامی سزائیں وحشیانہ ہیں ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔
Top