Asrar-ut-Tanzil - Al-Ankaboot : 23
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآئِهٖۤ اُولٰٓئِكَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیوں کا وَلِقَآئِهٖٓ : اور اس کی ملاقات اُولٰٓئِكَ : یہی ہیں يَئِسُوْا : وہ ناامید ہوئے مِنْ رَّحْمَتِيْ : میری رحمت سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور جو لوگ اللہ کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے منکر ہوئے وہ ہماری رحمت سے ناامید ہوگئے ہیں۔ اور ان ہی لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے
آیات 23 تا 30 اسرارومعارف کفار جو اللہ پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے سے انکار کرتے تو اس کا سبب یہ ہے کہ انہیں قیامت کے دن اور دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا یقین نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے ہی محروم ہوجاتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے بہت دردناک عذاب ہے۔ کفار دلائل میں تو ابراہیم سے عاجز آگئے مگر کہنے لگے کہ انہیں قتل کردیا جائے اور وہ بھی ایسے دردناک طریقے سے کہ زندہ آگ میں پھینک کر جلا دیا جائے غرض وہ ایسا کر گزرے لیکن اللہ نے اس آگ سے محفوظ رکھا۔ اہل ایمان کے لیے تو اس واقعہ میں بہت بڑے دلائل ہیں کہ کفار کی ایذا پر استقامت اختیار کی جانی چاہیے۔ برائی پر اتحاد مفادات کے لیے ہوتا ہے : چنانچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم سے فرمایا کہ تمہارا یہ بظاہر اس بت پرستی اور بتکدوں پہ اتحاد و اتفاق محض دنیا کے مفادات کی خاطر ہے اور حق یہ ہے کہ برائی پر جتنے لوگ جمع ہوتے ہیں سب کی اپنی اپنی اعراض ہوتی ہیں پوری ہوں یا نہ یہ الگ بات ہے مگر یہ یاد رکھو کہ روز محشر تم ایک دوسرے کو دیکھنا تک گوارا نہ کروگے بلکہ دوستی کا سرے سے انکار کردوگے مگر تم سب کو جہنم میں ٹھکانہ ملے گا اور کوئی تمہارا معاون و مددگار نہیں ہوگا کہ برائی سے الگ ہونا ہے تو آج ہوجاؤ اس وقت مفید نہ ہوگا مگر پوری قوم میں سے حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان لائے اور ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے ہجرت کا اور تمہارے شہروں سے چلے جانے کا حکم دیا ہے لہذا اب ایسی جگہ جارہا ہوں جہاں کوئی کافر معاشرہ اللہ کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ مفسرین کرام کے مطابق یہ تارخ میں پہلی ہجرت تھی جو اللہ کی راہ میں کی گئی چناچہ اپنی اہلیہ حضرت سارہ اور حضرت لوط (علیہ السلام) کو لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ چناچہ اللہ نے انہیں ان سے بہتر رشتہ دار اور خاندان عطا فرمایا کہ اسحاق (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے یعقوب (علیہ السلام) جیسے بچے عطا کیے جو نہ صرف خود نبی ہوئے بلکہ آئندہ انہی کی نسل میں سے انبیاء مبعوث ہوتے رہے تاآنکہ نبی اکرم ﷺ حضرت اسمعیل کی اولاد میں سے مبعوث ہوئے یہ بھی ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی اولاد تھی صرف اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کی نہ تھی کتنا اچھا بدلہ انہیں دنیا میں عطا ہوا اور آخرت میں تو وہ اللہ کے نیک بندوں ہی میں سے ہیں اور لوط (علیہ السلام) بھی اپنی قوم کی طرف نبی مبعوث ہوئے جب وہ غلط کام پر اتر آئی تھی چناچہ انہوں نے منع فرمایا کہ تم ایسی بےحیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا کہ تم لڑکوں اور مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو اور ڈاکے ڈالتے ہو اور پھر اپنی مجالس میں ان برائیوں پر فخر کرتے ہو جو ایک بہت بڑی برائی ہے تو وہ بھی دلائل سے آجز آکر کہنے لگے اچھا اگر آپ سچ کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور ہم نے اطاعت نہ کی تو ہم پر عذاب آجائے گا تو پھر لائیے وہ عذاب ہم آپ کی بات نہ مانیں گے۔ تو آپ نے ان پر بدعا فرمائی کہ اے اللہ ان فسادیوں کے مقابلہ میں تو میری مدد فرما۔
Top