Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے مت کھاؤ ہاں اگر آپس میں باہمی رضامندی سے تجارت ہو تو (حرج نہیں) اور آپس میں (ایک دوسرے کو) قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر بڑے مہربان ہیں
آیت نمبر 29 تا 30:۔ یا ایھا الذین امنوا لاتاکلوا۔۔ ۔ فندخلکم مدخلا کریما۔ مال حرام کا کاروبار : کمالاتِ روحانی اور تجلیات باری سے اس خاکی وجود کو منور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں حرام کی آمیزش نہ کی جائے جس عمارت پر کیچڑ تھوپ دیا جائے اس میں تو وہ چمک دمک اور خوبصورتی پیدا نہیں ہوسکتی جس کی تم امید رکھتے ہو سو۔ اموالکم۔ فرما کر یہ اشارہ فرمایا کہ سب مسلمانوں کے مال تمہارے اپنے مال ہیں سو اپنے مال کی حفاظت کی جانی چاہئے نہ کہ اسے ضائع کیا جائے پھر حرام کا لقمہ پیٹ میں حل ہو کر اعضاء وجوارح کی قوت بنتا ہے ہاتھ پاؤں آنکھ زبان دماغ اور دل تک سب اس سے متاثر ہوتے ہیں جب یہاں سب حرام جمع ہوجائے گا تو نیکی کرنے کی قوت ہی وجود سے ختم ہوجائے گی حق کا سننا سمجھنا اور اس پر عمل سب دشوار ہوجائے گا اور وہ عالی منازل جو تمہیں حاصل کرنا چاہئیں تھیں تمہاری پہنچ سے بہت دور چلے جائیں گے اس لیے کبھی بھی ناجائز طور پر کوئی لقمہ حاصل نہ کرو کفر شرک یا عقیدے کا کوئی بھی گناہ طاری ہوتا ہے اور توبہ کرنے سے دھل جاتا ہے مگر اکل حرام کا گناہ وجود میں ساری ہوتا ہے خون بن کر رگوں میں دوڑتا ہے اس کی توبہ بھی بہت مشکل ہے کہ جس کا حق کھایا تھا اس کو لوٹا کردے یا معاف کرائے اور اگر وہ شخص مرگیا یا لاپتہ ہے نہیں مل سکتا تو رقم اللہ کے نام پر دے کر اس کو ثواب پہنچائے اور اللہ سے معافی چاہے ورنہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو حصہ بدن حرام سے بنے گا اس کے لیے آگ ہی سزاوار ہے یعنی ایسے افراد کی اگر بخشش بھی ہوگی تو وہ گوشت دوزخ میں جلا دیا جائے گا اس کے بعد وہاں سے نکل کر جنت میں داخل ہوں گے۔ مال حرام کی مختلف صورتیں : ہاں مال کی گردش ہی باعث حیات بھی ہے سو تمہیں تجارت کرکے ایک دوسرے سے نفع کمانے کی اجازت ہے اور تجارت اس لین دین کا نام ہے جو باہمی رضامندی سے مال کے بدلے مال یا محنت کے بدلے مال یعنی ملازمت ، مزدوری یا بیع و شرا یا کرایہ وغیرہ سب تجارت میں داخل ہے اور اس میں رضامندی سے مراد یہ ہے کہ نہ کسی کو مجبور کیا جائے جیسے ذخیرہ اندوزی کرکے کیا جاتا ہے کہ مال صرف ایک آدمی کے پاس جمع ہوگیا وہ منہ مانگے داموں فروخت کرتا لوگ آکر خریدتے ہیں بظاہر تو کوئی انہیں پکڑ کر نہیں لاتا مگر یہ رضامند مجبوری کا دوسرا نام ہے اس لیے یہ حرام ہے ایسے ہی جھوٹ بول کر یا وعدہ خلافی کرکے مثلاً جس مال کا وعدہ تھا اس میں ناقص ملا دیا تو درست نہ ہوگا یا پھر سرے سے مال ہی نہ ہو جیسے سٹہ یا جوا کہ جس میں مال ہوتا ہی نہیں محض ذہنی طور پر تصور کرکے سودا طے ہوگیا حرام ہے یعنی ایک طرف مال ہے اور دوسری طرف مال ہی نہیں یہی حال سود کا ہے کہ ادھار کی میعاد کا معاوضہ ہوتا ہے اور میعاد کوئی مال نہیں سو حرام ہے یہ تمام صورتیں جن میں ایک طرف مال موجود ہو اور دوسری طرف مال نہ ہو یا مشکوک ہو تو اسے فقہا نے بیع باطل قرار دیا ہے اور دوسری قسم جہاں دونوں طرف مال ہے مگر کسی ایک طرف رضا مندی کے نام پر مجبوری ہے تو اسے بیع فاسد کہا جائے گا جیسے ذخیرہ اندوزی کی صورت اور یہی حال رشوت کا ہے کہ اگر کوئی رشوت دے کر وہ چیز حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کا حق نہیں تو دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں لیکن اگر کسی کو اس قدر مجبور کردیا جائے کہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ تلاش نہ کرسکے اور مجبور ہو کر رشوت دے اور اپنا حق حاصل کرے تو دینے والا گناہگار نہ ہوگا لینے والا ڈاکو شمار ہوگا بشرطیکہ جائز طریقہ تلاش نہ کیا جاسکتا ہو ورنہ محض سستی کی وجہ سے رشوت دینے والا بھی گناہ میں تعاون کرنے والا شمار ہوگا ایسے ہی کسی کی بیوی نے مجبورا معاف کردیا یا بیٹیوں اور بہنوں سے حصہ معاف کرالیا گیا جو اکثر بصورت مجبوری ہی ہوتا ہے تو یہ سب حرام ہے اور تجارت کی تمام صورتیں جو اسی آیہ کریمہ کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں فقہانے کتاب البیوع اور کتاب الاجارہ میں بیان کردی ہیں۔ یہاں مفہوم کتاب عرض کرنا مقصود ہے اور چونکہ عورتوں کے حقوق کا بیان ہورہا ہے اس لیے بنیادی بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اداء حقوق ہی انسانی عظمت کا تقاضا ہے اور انسانیت کا مقام فرشتوں سے بلند تر ہے مگر عالم بالا کی لطافتیں پانے کے لیے جہاں عبادات ضروری ہیں وہاں معاملات کو بہت زیادہ دخل ہے کہ تعمیر بدن میں حلال ذرائع سے رزق حاصل کرنا ضروری ہے اور فرمایا۔ لاتقتلوا انفسکم۔ یعنی آپس میں خون نہ کرو یا اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو یہ وہ الفاظ ہیں جو مترجمین حضرات نے لکھے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ انداز بیان سے یہ ظاہر ہے کہ ناجائز ذرائع سے روزی حاصل کرنا یا دوسروں کے حقوق دبا لینا گویا اپنے آپ کو قتل کردینا ہے کہ اس وجہ سے انسان روحانی کمالات حاصل کرنے سے محروم ہوجاتا ہے جو ایک طرح سے قتل نفس ہے کہ ایسے لوگ جن کے دل یاد الہی سے غافل ہوں اہل ذوق کے نزدیک مردہ شمار ہوتے ہیں اور ان کے جسم ان کی ارواح کی قربیں ہیں۔ واجسامھم قبل القبور قبور۔ کہ ان کے وجود قبر میں جانے سے پہلے خود ارواح کی قبریں بن گئیں اور قبروں پہ تو حسرت ہی برستی ہے ویرانی ہوتی ہے اسی لیے معاشرے میں ویرانی نظر آتی ہے مفسرین نے خود کشی کو بھی یہاں حرام لکھا ہے اور ناحق قتل بھی مگر ان کے احکام دوسری جگہ پر بھی موجود ہیں یہاں جو براہ راست اشارہ ملتا ہے وہ یہی ہے کہ حقوق العباد کو دبانے والا اپنے آپ کو منازل علیا کے حصول سے محروم کردیتا ہے اور ہر قسم کی نیکی سے محروم ہوجاتا ہے جو گویا قتل نفس ہی کی ایک صورت ہے یہ سب احکام تمہیں تمہاری ہی بھلائی کے لیے دئیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑا رحم کرنے والا ہے اور تمہارے حق میں اس کی رحمت بہت وسیع ہے لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر اور زیادتی کرتے ہوئے اللہ کریم کے احکام کے خلاف کرے گا تو عنقریب آگ میں داخل کیا جائے گا۔ درحقیقت وہ رحمت باری کا دامن جھٹک کر غضب الہی میں چھلانگ لگانے والا ہوگا اور یاد رکھو عذاب کرنا اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے ہاں اگر خطاء یا سہو و نسیاں سے کسی سے ایسا ہوجائے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں مگر ضروری ہے کہ اس کی تلافی کی کوشش کی جائے اور توبہ کی جائے۔ گناہ کے درجات : اور اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے یہاں گناہوں کی دو قسمیں ارشاد فرمائی ہیں کبیرہ اور صغیرہ۔ علما نے بڑی لمبی اور بعض اوقات چھوٹی فہرستیں ، ارشاد فرمائی ہیں جن میں کبھی سات یا تین یا کچھ زیادہ کبیرہ گناہ ارشاد فرمائے ہیں ان میں کوئی اختلاف اس لیے نہیں کہ جن لوگوں نے تفصیل جمع کی ان کی فہرست لمبی ہوگئی مگر قرآن حکیم نے ایک اصول دیا ہے کہ کبیرہ وہ ہیں جن سے تمہیں منع کیا گیا۔ ما تنھون عنہ۔ علما کے مطابق جن گناہوں پر دوزخ کی وعید آئی ہے وہ کبیرہ ہیں اور اس کے علاوہ صغیرہ ہیں یہ یاد رہے کہ ہر گناہ بنیادی طور پر گناہ ہے صغیرہ صرف اس لیے کہا گیا کہ دوسرے گناہ کی نسبت چھوٹا ہے ورنہ گناہ تو ہے اور صغیرہ عبادات سے معاف ہوتے رہتے ہیں ہیں اس صورت میں کہ آدمی کبائر سے بچنے کی کوشش کرے جیسے حدیث شریف میں وارد ہے کہ وضو کرنے سے اعضاء سے گناہ جھڑ جاتے ہیں لیکن اگر کوئی کبائر میں مبتلا ہو تو پھر اسے یہ نعمت بھی نصیب نہیں ہوتی بلکہ ہر گناہ کفر کا قاصد ہوتا ہے اور ہر گناہ سے دل پر سیاہ نقطہ بنتا جاتا ہے اگر سارا دل سیاہ ہوجائے تو ایمان سلب ہوجاتا ہے جو بہت بڑی سزا ہے اور آج کے معاشرے میں یہ مصیبت عام نظروں کے سامنے ہے عموماً ترک فرائض و عبادات ، کسی مخلوق میں وہ اوصاف یا کوئی ایک صفت ماننا جو ذات باری سے مختص ہیں یا افلاس کے ڈر سے قتل اولاد اس میں وہ اسقاطِ حمل بھی شامل ہے جو روح پڑنے کے بعد بغیر عذر شرعی کیا جائے۔ زنا۔ شراب خوری ، قتلِ ناحق ، یتیم کا مال کھانا ماں باپ کو گالی دینا یا کسی کو گالی دینا کہ جواب میں ماں باپ کو گالیاں پڑیں سود کی آمدنی رشوت میدانِ جہاد سے فرار پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا ضرورت زندگی کی اشیا کو روکنا بےخوف ہو کر گناہ کیے جانا تکبر کرنا بادشاہ یا بااختیار ہونے کے باوجود جھوٹ بولنا جنات و شیاطین کے ذریعے خبریں حاصل کرنا یا لوگوں کو بتانا یا حصول دنیا کے لیے کسی امام کی بیعت کرنا یا قطع رحمی کا مرتکب ہونا غرض اس طرح کی فہرست فقہ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے آخر میں عرض ہے کہ بیت اللہ شریف کی بےحرمتی اکبر الکبائر میں داخل ہے اور کسی مسلمان سے اس کی امید نہیں رکھی جاسکتی سو فرمایا کہ اگر تم کبائر سے بچنے کی کوشش کرتے رہو تو تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ یا بھول چوک جو انسانی مزاج کا خاصہ ہے معاف کردئیے جائیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کیا جائے گا یعنی تم عظمت انسانی کے ساتھ ابدی راحت کو پا لو گے۔
Top