Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 39
وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا
وَمَاذَا : اور کیا عَلَيْهِمْ : ان پر لَوْ اٰمَنُوْا : اگر وہ ایمان لاتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت پر وَاَنْفَقُوْا : اور وہ خرچ کرتے مِمَّا : اس سے جو رَزَقَھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِهِمْ : ان کو عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
اور ان کو کیا (مصیبت) ہے اگر اللہ کے ساتھ اور آخرت کے دن کے ساتھ ایمان لائیں اور جو مال اللہ نے ان کو دیا ہے اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرتے رہا کریں اور اللہ ان کو خوب جانتے ہیں
آیت 39 تا 42: وما ذا علیہم لو امنوا۔۔ ولا یکتمون اللہ حدیثا۔ اگر یہ اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہی لے آتے تو ان کا کیا بگڑ جاتا اگر اللہ کے دئیے کو اسی کے حکم کے مطابق خرچ کرتے تو انہیں کوئی نقصان اٹھانا نہ پڑتا بلکہ ایمان باللہ ہی وہ نعمت ہے جو زندگی آسان کردیتی ہے اور ایک ایسا سہارا نصیب ہوجاتا ہے جو مزید کسی سہارے کا محتاج نہیں رہنے دیتا ایمان بالآخرت ہی انسانی معاشرے کی اصلاح کا بنیادی پتھر ہے اگر اللہ اور آخرت پر ایمان نہ ہو تو زندگی جہنم کا نمونہ بن جاتی ہے جس پر مغرب کا خدا فراموش معاشرہ پکار پکار کر شہادت دے رہا ہے کہ حکومت اور اس کے وسائل سب کچھ ہے مگر جرائم پہ قابو نہیں پایا جا رہا کہ پس دیوار صرف ایمان کی قوت کام آتی ہے حکومت کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی تو اگر لوگوں کو یہ نعمت نصہب ہوتی تو خود ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوجاتیں نیز مال و دولت ہو یا علم قوت جسمانی ہو یا عہدہ اور مرتبہ یہ سب اللہ کریم ہی کی عطا ہے اگر انہیں اسی کی رضا کے لیے اور اسی کے حکم کے مطابق استعمال میں لاتے تو تھوڑی محنت سے زیادہ نتائج حاصل کرتے پھر حق بات یہ ہے کہ اللہ کریم سب لوگوں سے ان کی سوچ اور عمل سے خوب واقف بھی ہے یعنی کوئی خیال یا حرکت اس کی ذات سے چھپی ہوئی نہیں ہے اسلام نظریات اور اعمال کے مجموعہ کا نام ہے کہ نظریہ بغیر عمل کے بےکار ہوتا ہے اور عمل بغیر نظریے کے لاحاصل تو گویا ایمان کے بغیر یا اطاعتِ الہی کے باہر کوئی انسانی کوشش مثبت نتائج پیدا نہیں کرسکتی اور اسلام انسانیت کی ضرورت ہے اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی بھی کام کو کرنے کا جو سلیقہ اللہ کریم کی طرف سے بتایا جائے گا وہ صحیح ترین طریقہ ہوگا اور جو طریقہ درست ہوتا ہے وہی آسان ترین ہوتا ہے اس کے علاوہ اگر کوئی راہ اپنائی جائے تو مشکل بھی ہوتی ہے اور اگر کام ہو بھی جائے تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے گویا اسلام ایک بھرپور آرام دہ باعزت زندگی کا نام ہے جو موت اور مابعد الموت کو بھی آسان بنا دے پھر نہ ماننے والے لوگ کتنے ہی بیوقوف اور نادان ہیں کہ وہ اللہ کریم کے روبرو کچھ چھپا بھی نہ سکیں گے اب رہی بات عذاب کی تو اللہ کریم کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کسی کے ساتھ ناانصافی کرے بات صرف اتنی ہے کہ انسان کو ایسا باشعور پیدا فرمایا کہ وہ بھلے برے میں تمیز کرسکتا ہے پھر اسے بھلا اور برا سمجھا بھی دیا۔ اور جب بھی جہاں بھی ضرورت پیدا ہوئی نبی بھیج کر اس کو پورا کردیا اور انسان کو راہ اپنانے کا اختیار بھی عطا فرمایا اب اگر کوئی گرفتار بلا ہوتا ہے یا عذاب الہی میں خود کو گراتا ہے تو یہ اس کی اپنی رائے اور پسند کا قصور ہے ورنہ اللہ تو ایسا کریم ہے کہ خطا پہ سزا تو بقدر خطا ہوگی مگر اطاعت کے اجر کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے جس کے بارے ارشاد ہے کہ کم از کم دس گنا ثواب عطا فرمتا ہے اور زیادہ کی حد نہیں بعض اعمال پر بیس لاکھ گنا اجر عطا فرمایا جاتا ہے اور بعض کو اس قدر بڑھا دیتا ہے کہ شمار میں نہیں آسکتا۔ کہ یوت من لدنہ اجرا عظیما۔ بہت بڑا جر حدوحساب سے باہر اجر عطا فرماتا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ محض اپنے ذاتی علم پر ہی سزا نہ دے گا بلکہ ہر امت پر اس کے نبی سے شہادت لی جائے گی جس کی دو صورتیں مذکور ہیں اول یہ کہ ہر امت پر اس کا نبی اس بات کی گواہی دے گا کہ ان تک دعوت الہیہ پہنچی تھی اور کس کس نے قبول کی اور کن لوگوں نے انکار کیا۔ چناچہ کفار وہاں پھر انکار کریں گے جس پر انبیا علیہم الصلوۃ والسلام سے سوال ہوگا کہ آپ کی بات پر کون تصدیق کرتا ہے تو عرض کریں گے بار الہ امت محمد ﷺ سے گواہی لی جائے چناچہ حضور اکرم ﷺ کی امت گواہی دے گی تو کفار کہیں گے کہ انہوں نے ہمارا زمانہ نہیں پایا تو عرض کریں گے کہ اے اللہ ہم نے تیرے نازل کردہ قرآن میں یہ سب حالات پڑھے تھے حضور اکرم ﷺ اپنی امت پر اسی امر کی شہادت دیں گے کہ انہوں نے میری دعوت قبول کرکے میری اطاعت کی تھی اور مجھ سے ہی ان تک آپ کا کلام پہنچا تھا جس میں خود آپ نے انہیں امت وسط اور خیر امت فرمایا تھا چناچہ تمام کفار کا جھوٹ ظاہر ہوجائے گا اس کے بعد کفار خود بھی اقرار کرکے عذر خواہ ہوں گے اور دوسری قسم شہادت کی یہ بھی ہوگی کہ دعوی اسلام کے ساتھ جو عمل ہم کرتے ہیں کیا وہ نبی کے فرمودہ امور ہیں یا لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیے ہیں جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال ہوگا۔ ء انت قلت للناس۔ کیا آپ نے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو تو وہ عرض کریں گے اے اللہ میں نے تو وہی کچھ کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا یہ تو ان بدنصیبوں کی اپنی ایجادات ہیں ایسے ہی جملہ اعمال جن پر ہمیں ثواب کی امید ہوتی ہے ہر امت کے نبی کی شہادت سے ہی قبول ہوں گے کہ وہ نبی کے حکم کے مطابق تھے اس لیے رسومات کو دین سمجھ لینا سخت نادانی ہے جن پر دنیا میں وقت محنت اور دولت صرف کی اور آخرت میں بجائے ثواب کے الٹا رسوائی کا اور عذاب کا سبب بن جائیں تو کس قدر حسرت ہوگی اس امر پر بھی روایات موجود ہیں کہ آپ ﷺ پر امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں جن کی حضور اکرم ﷺ تصدیق یا تردید فرماتے ہیں وہی شہادت میدان حشر میں بھی پیش ہوگی تو کفار اور نافرمان یہ خواہش کریں گے کہ کاش انہیں مٹی میں ملا دیا جائے اور ان کا نام و نشان نہ رہے کہ پوچھ گچھ سے اور عذاب الہی سے بچ سکیں مگر خود ان کا چپنا تو کجا اپنے کسی چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی نہ چھپا سکیں گے کفر تو بجائے خود بہت بڑی مصیبت ہے مگر ایسے لوگوں کا حال بھی کچھ کم برا نہ ہوگا جو رسومات کو دین سمجھ بیٹھے ہیں اس لیے کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہئے کہ آیا واقعی یہ حضور ﷺ کا حکم ہے اور سنت خیر الانام کی خلاف ورزی تو نہیں اور ایسے امور جو آپ ﷺ سے ثابت نہ ہو کو ہرگز دین نہ سمجھا جائے۔ یہاں ختم نبوت کی دلیل بھی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی نہ کوئی امت کو آخری امت بطور گواہ اور آخری نبی بطور شہادت آپ ﷺ کی امت اور آپ ﷺ ہی کی ذات عالی ہوگی لہذا آپ صلی اللہ عہلیہ وسلم کی بعثت کے بعد کسی بھی نئے نبی کا دعوی باطل ہے۔
Top