Asrar-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 68
یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ
يٰعِبَادِ : اے میرے بندو لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ : نہیں کوئی خوف تم پر الْيَوْمَ : آج وَلَآ اَنْتُمْ : اور نہ تم تَحْزَنُوْنَ : تم غمگین ہو گے
اے میرے بندو ! آج تم پر کوئی خوف نہیں اور نہ تم غمگین ہوگے
آیات 68 تا 89۔ اسرار ومعارف۔ اور جو ایک دوسرے کی نیکیوں کی اور نیکی کی طرف دعوت کی شہادت دیں گے انہیں اللہ کریم کی طرف سے بھی ارشاد ہوگا کہ اے میرے بندو آج کے دن تم ہر خوف سے آزاد ہو نہ کفار کا اندیشہ اور نہ عذاب کی فکر اور تمہیں کچھ کھونے کا غم کہ کافر کو تو دنیا کے کھونے کا رنج ہوگامگر مومن اس سے کہیں زیادہ اور حقیقی نعمتیں حاصل کرے گا کہ یہ وہ لوگ تھے جو ایمان لائے اللہ کی اطاعت کی اور اس کے احکام کو تسلیم کیا۔ آج کے روز جنت میں داخل ہوجاؤ تم اور تمہارے گھر والے یعنی جو دن کفار ک لیے انتہائی سخت ہوگاوہی مومنین کے لیے کامیابی کا دن ہوگا اور وہ جنت میں بہت عزت سے داخل ہوں گے جہاں ان کے لیے خدا سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا اور پینے کی چیزیں پیش کریں گے ہر وہ نعمت جس کی وہ خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں نیز یہ عارضی انعامات نہ ہوں گے بلکہ وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور فرمادیاجائے گا کہ یہ جنت تمہاری ہے جیسے وارث کو میراث ملا کرتی ہے کہ تم نے اللہ کی اطاعت کی اور اس کے رسول کا اتباع کیا اور ان کی نصرت کی اس میں سدا بہار پھل اور بےحسابات نعمتیں ہیں جو تمہاری ہی خاطر ہیں اور دوسری طرف اللہ کے مجرم اس کے دین اور نبی کی مخالفت کرنے والے دوزخ کے عذاب میں ہوں گے جہاں انہیں بھی ہمیشہ رہنا ہوگا وہاں سے نکلنا تو کیا کفار پر عذاب بھی ہلکا نہ ہوگا بلکہ جس درجے میں یوم حشر ڈال دئیے گئے اسی میں رہیں گے اور ہم نے انکے ساتھ یہ زیادتی نہیں کی کہ بلکہ خود انہوں نے کفر اختیار کرکے اپنے ساتھ ظلم کیا حالانکہ داروغہ جہنم جس کا نام مالک ہے اس کو بھی پکار کر کہیں گے کہ ہماری دعا توسنی نہیں جاتی آپ ہمارے لیے دعا کرو شاید آپ کا رب آپ کی بات تو سن لے کہ ہم نے تو رب ماننے سے انکار کیا تھا آج وہ ہماری بات سننے سے انکار کرتا ہے مگر آپ دعا کرو کہ اللہ ہمیں فنا کردے اور اس عذاب سے ہماری جان چھوٹ جائے تو وہ جواب دے گا کہ ایسا ممکن نہیں بلکہ فیصلہ ہوچکا اور تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ ہم نے تو تمہارے پاس سچا دین پہنچایا اللہ کی خالص توحید اس کی ذات وصفات کا علم اس کی اطاعت کا طریقہ اور سلیقہ رسول برحق نے اللہ کی کتاب لاکر اور اس کی وضاحت زبانی بھی اور عملی بھی کرکے دکھادی مگر تمہاری بدبختی کہ تمہیں کھری بات پسند ہی نہیں بلکہ الٹا آپ کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کرنے لگے چناچہ ہم نے بھی تدبیر کی کہ آپ کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے اور خود بر میں ہلاک ہوگئے اور آخر شرک کانشان تک مٹ گیا اور وہ شہر عظیم ہمیشہ کے لیے دین کامرکز بن گیا۔ یہ کیا سمجھ رہے تھے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور سرگوشیوں کو نہیں سنتے بھلا ہماری ذات سے کیا چھپا ہے جبکہ ان کی خفیہ باتیں تو ان فرشتوں نے بھی لکھ رکھی ہے جو ہم نے اس کام پر مقرر کیے ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کریم کی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلا شخص ہوتا جو اس کی عبادت کرتا یعنی میں تمہاری ضد کی وجہ سے ایسا نہیں کہہ رہا کہ اللہ کی کوئی اولاد نہیں بلکہ یہ حق ہے اور اس کی ذات ان باتوں سے پاک ہے ۔ وہ تو رب ہے بنانے والا اور قائم رکھنے والا ، آسمانوں اور زمینوں اور عرش عظیم کا اس کی شان ان کی باتوں سے بہت بلند ہے وہ ساری مخلوق کا خالق ہے اگر انہیں یہی ضد ہے تو آپ انہیں چھوڑ دیجئے کہ اس طرح کی خرافات میں لگے رہین اور رسومات یعنی کھیل تماشے میں کھوئے رہین حتی کہ وہ دن آجائے جس کا وعدہ کیا گیا ہے یعنی موت اور پھر قیامت تو حقیقت خود بخود سمجھ لیں گے اللہ کی عظمت تو یہ ہے کہ آسمان میں بھی صرف وہی اکیلامعبود ہے سب اس کی عبادت کرتے ہیں اور زمین میں بھی عبادت اسی کو سزاوار ہے کہ وہ حکمت والا بھی ہے اور ہر شے کو ہر آن جانتا ہے بہت بڑی برکت والی ہے اس کی ذات جس کی حکومت آسمانوں اور زمینوں اور ان میں کی ہرچیز پر ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ قیامت کب قائم فرمائے گا اور سب کو لوٹ کر اسی کی بارگاہ میں جانا ہے اور یہ لوگ جن کو معبود بنائے ہوئے ہیں اور اللہ کی علاوہ جن کی عبادت کرتے ہیں وہ تو اس قابل بھی نہ ہوں گے کہ ان کی سفارش ہی کرسکیں کہ سفارش کی اجازت بھی اللہ کی طرف سے ان ہستیوں کو ہوگی جو لوگوں کو حق کی طرف بلاتے تھے اور ان کو خبر تھی کہ ان کا ایمان تھا کہ یہ دن آئے گا وہ بھی اہل ایمان کی سفارش کریں گے جنہوں نے حق قبول کیا۔ ان سے پوچھیے بھلا ان کو کس نے پیدا کیا تو لامحالہ کہیں گے اللہ نے تو پھر اس کی اطاعت سے روگردانی کیا معنی اور آپ کی اس بات کی قسم یعنی آپ کا یہ فرمانا کہ اے اللہ میں نے بہت کوشش کی مگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے بھی ان کی سزا کے لیے ایک ٹھوس گواہی کی حیثیت رکھتا ہے سو آپ ان سے رخ انور پھیر لیجئے انہیں چھوڑ دیجئے عنقریب ان کو خود پتہ چل جائے گا یہاں سلام کہنے سے مراد السلام علیکم کہنا نہیں نہ یہ کافر کے لیے جائز ہے بلکہ مراد اچھے طریقے سے الگ ہوجانا ہے۔
Top