Tafseer-e-Baghwi - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
انصاف کے دن کا حاکم
(آیت)” مالک یوم الدین “ حضرت عاصم (رح) اور کسائی (رح) اور یعقوب (رح) نے (مالک) پڑھا اور باقیوں نے ” ملک “ پڑھا ، ایک قوم نے کہا دونوں کا معنی ایک ہے جیسے فرھین اور فارھین ، حذرین اور حاذرین۔ لہذا مالک اور ملک دونوں کا معنی الرب ہے ، چناچہ رب الدار اور مالک الدار کا معنی ایک ہوگا بعض نے کہا مالک وہ ہے جو ایشاء کے عدم سے وجود کی طرف لانے کی اختراع پر قادر ہو اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو یہ قدرت حاصل نہیں ہے ، ابوعبیدہ ؓ فرماتے ہیں کہ لفظ مالک میں جامعیت اور وسعت زیادہ ہے ، چناچہ غلاموں ، پرندوں اور جانوروں کا مالک تو کہا جاسکتا ہے مگر ان چیزوں کا مالک نہیں کہا جاسکتا ، نیز مالک جن چیزوں کا مالک ہوتا ہے وہ چیزیں اس مالک کی ملک ہوتی ہیں ۔ مگر کبھی ملک ایسی چیزوں کا بھی ہوتا ہے جو اس کی ملک نہیں ہوتیں (یعنی ملک چیزوں کا مالک نہیں ہوتا) ایک قوم نے کہا ملک مالک سے بہتر ہے کیونکہ ہر ملک مالک ہوتا ہے مگر ہر مالک ملک نہیں ہوتا ۔ نیز ملک کا لفظ قرآن کریم کی بقیہ اصطلاحات کے ساتھ زیادہ موافقت رکھتا ہے ، مثلا قول ربانی ہے : (آیت)” فتعالی اللہ الملک الحق “۔ اور ” الملک القدس “ اور ” ملک الناس ‘ حضرت ابن عباس ؓ مقاتل علامہ سدی (رح) فرماتے ہیں ” ملک یوم الدین “ کا معنی قاضی یوم الحساب۔ حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں دین کے معنی جزا کے ہیں اور یہ جزا یعنی بدلہ خیر کا ہو یا شر کا دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے کہ کہا جاتا ہے ” کما تدین تدان “ یعنی جیسا معاملہ کرو گے ویسے ہی معاملہ کیے جاؤ گے ، محمد بن کعب القرظی فرماتے ہیں (آیت)” ملک یوم الدین “ کا معنی ہے اس دن کا مالک جس دن سوائے دین کے اور کوئی چیز نفع نہ دے گی ۔ یمان بن ریان فرماتے ہیں دین کا معنی ہے قہر یعنی تسلط وکنڑول کرنا ، جیسا کہ کہا جاتا ہے ” دنتہ فلان “ یعنی میں اس کو زیر تسلط لایا ، پس وہ میرے تسلط کے تحت آگیا یعنی مطیع ہوگیا ، دین کا معنی طاعت یعنی فرمانبرداری بھی کیا گیا ہے ، ، (پھر یوم الدین کا معنی ہوگا) ” یوم الطاعۃ “ (باقی رہی یہ بات) کہ صرف ” یوم الدین “ کو خاص کیوں کیا گیا باوجودیکہ وہ ذات پروردگار تو تمام ایام کی مالک ہے (یہ تخصیص اس لیے) کہ اس دن تمام ملکتیں زائل ہوجائیں گی ، لہذا کسی کا ملک اور حکم سوائے اللہ تعالیٰ کے نہیں ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” الملک یومئذن الحق للرحمن “۔ اور فرمایا (آیت)” لمن الملک الیوم للہ الواحد القھار “۔ اور فرمایا (آیت)” والامر یومئذللہ “ اور ابوعمرو نے پڑھا (الرحیم ملک) یعنی رحیم کی میم کو ملک کی میم میں ادغام کر کے پڑھا ، اسی طرح ہر وہ دو حرف باہم مدغم کیے جاتے ہیں ، جب وہ دونوں حرف ایک جنس سے ہوں یا دونوں کا مخرج ایک ہو یا دونوں قریب المخرج ہوں ، برابر ہے حرف (اول) ساکن ہو یا حرکت والا ہو مگر اس وقت جب کہ پہلا حرف شد والا ہو یا تنوین والاہو یا منقوص ہو یعنی لفظ کے آخر میں یاء ساکن ہو یا پہلا حرف زبر والا ہو یا تاء خطاب ہو اور اس سے پہلا حرف ساکن ہو اور دونوں ہم مثل نہ ہوں تو ان صورتوں میں ادغام نہ ہوگا اور حرکت والے حرف کا ادغام ، ادغام کبیر میں ہوتا ہے ، ادغام کبیر مختلف جنس کے حرفوں کے ادغام کو کہتے ہیں ادغام متحرک میں حمزہ نے ابوعمرو کی اللہ تعالیٰ کے اس قول میں موافقت کی (بیت طائفۃ) (والصافات صفا) ” فالزاجرات زجرا فالتالیات ذکرا “ اور ” والذاریات ذروا “ ان سب میں تاء کو اپنے بعد کے حروف میں ادغام کیا گیا ، رجاء اور حنف کی روایت کے مطابق حمزہ نے ابوعمرو کی موافقت کی مگر راء میں موافقت نہیں کی جبکہ وہ لام کے پاس ہو اور دال میں بھی موافقت نہیں کی جب وہ جیم کے قریب ہو ۔ اسی طرح حمزہ دال کا ادغام جب وہ سین ، صاد اور زاء کے قریب ہوا نہیں کرتے ، بقیہ قراء کے نزدیک چند حروف کے سوا ادغام نہیں ہے۔
Top