Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 16
وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا
وَاِذِ : اور جب اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ : تم نے ان سے کنارہ کرلیا وَ : اور مَا يَعْبُدُوْنَ : جو وہ پوجتے ہیں اِلَّا اللّٰهَ : اللہ کے سوا فَاْوٗٓا : تو پناہ لو اِلَى : طرف میں الْكَهْفِ : غار يَنْشُرْ لَكُمْ : پھیلادے گا تمہیں رَبُّكُمْ : تمہارا رب مِّنْ : سے رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَيُهَيِّئْ : مہیا کرے گا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَمْرِكُمْ : تمہارے کام مِّرْفَقًا : سہولت
اور جب تم نے ان (مشرکوں) سے اور جن کی یہ خدا کے سواء عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ہے تو غار میں چل رہو تمہارا پروردگار تمہارے لئے اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے کاموں میں آسانی (کے سامان) مہیا کرے گا۔
16 ۔ پھر بعض نے بعض کے ساتھ کہا ” واذاعتزلتموھم “ تمہاری قوم ” وما تعبدون الا اللہ “ بعض نے کہا کہ اس کو یعبدون بھی پڑھ سکتے ہیں۔ معروف و مشہور قرأت یہی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے اور ان کے ساتھ بتوں کی بھی عبادت کرتے۔ اس لیے ان کی عبادت کے ساتھ ساتھ الا اللہ کہنے کی ضرورت پیش آئی۔ بعض نے کہا کہ اللہ نے فرمایا کہ اصحاب کہف اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ ” فاؤوا الی الکھف “ یعنی غار کی طرف منتقل ہو جائو۔ ” ینشرلکم “ تمہارے لیے رزق کو کشادہ کر دے گا۔ ” ربکم من رحمتہ ویھیی لکم “ اور اس کو تمہارے لیے آسان کر دے گا۔ ” من امرکم مرفقا “ وہ ذریعہ جس سے فائدہ حاصل ہو۔ ابو جعفر، نافع ابن عامر وغیرہ نے ” مرفقا “ فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور رفاء کے کسرہ کے ساتھ اور دوسرے قراء نے میم کے کسرہ اور رفاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس کا معنی ایک ہی ہے۔
Top