Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١٘ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا
اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے اللّٰهُ : اللہ وَاذْكُرْ : اور تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب اِذَا : جب نَسِيْتَ : تو بھول جائے وَقُلْ : اور کہہ عَسٰٓي : امید ہے اَنْ يَّهْدِيَنِ : کہ مجھے ہدایت دے رَبِّيْ : میرا رب لِاَقْرَبَ : بہت زیادہ قریب کی مِنْ هٰذَا : اس سے رَشَدًا : بھلائی
مگر (انشاء اللہ کہہ کر یعنی اگر) خدا چاہے تو (کردوں گا) اور جب خدا کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو اور کہہ دو کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے۔
تفسیر 24 ۔ ” الًا ان یشاء اللہ “ جب آپ کل کے دن کسی کام کرنے کا ارادہ فرمائیں تو یہ نہ کہیں کہ میں یہ کام کل کروں گا مگر یہ کہ آپ کہہ دیں کہ ان شاء اللہ یہ اس وجہ سے کہ اہل مکہ نے آپ ﷺ سے روح کے متعلق، اصحاب کہف کے متعلق اور ذی القرنین کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس کے متعلق کل خبر دوں گا اور ان شاء اللہ نہیں فرمایا، وحی کچھ دن نہ آئی۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی ” واذکر ربک اذا نسیت “ ابن عباس ؓ، مجاہد اور حسن کا قول ہے کہ ان شاء اللہ اگر کہنا بھول جائو تو جس وقت بھی یاد آجائے ان شاء اللہ کہہ دو ۔ ابن عباس ؓ نے مستثنیٰ منقطع کو جائز قرار دیا ہے اور کہا کہ ایک سال کے بعد بھی ان شاء اللہ کہنا درست ہے۔ حسن کا قول ہے کہ جب تک مجلس برخاست نہیں ہوئی اس وقت تک اس کو استثناء کا اختیار حاصل ہے اور بعض نے کہا کہ جب زمانہ قریب آجائے اور اگر زمانہ دور ہوجائے تو ” فلا “ پھر درست نہیں اور ایک جماعت نے اس استثناء کو جائز قرار نہیں دیا۔ الایہ کہ کلام متصل ہو اور عکرمہ کا قول ہے کہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ جس وقت تم کو غصہ آئے تو اللہ کو یاد کرو۔ وہب کا قول ہے کہ انجیل میں آیا ہے کہ اے ابن آدم ! تجھے غصہ آئے تو مجھے یاد کر، جب مجھے غصہ آئے گا تو میں بھی تیری یاد کروں گا۔ ضحاک اور سدی کا بیان ہے کہ گآیت مذکورہ کا حکم نماز سے متعلق ہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، اگر کوئی شخص نماز پڑھنا بھول جائے تو جس وقت یاد آجائے تو پڑھ لو۔ ” وقل عسیٰ ان یھدین ربی لا قرب من ھذا رشدًا “ آپ کو ایسے راستے پر ثابت قدم رکھے گا جو اس کے زیادہ قریب کرنے والا ہوگا۔ بعض نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ جب کوئی چیز بھول جائیں تو اس کو یاد کریں اور یہ کہو کہ امید ہے کہ اللہ مجھے ایسے راستے کی ہدایت کر دے گا۔ جو اس ذکر سے بھی زیادہ اقرب ہوگی۔ یعنی اللہ اپنی ذات تک خود پہنچا دے گا۔ بعض علماء نے کہا کہ جب لوگوں نے آپ ﷺ سے اصحاب کہف کے متعلق پوچھا اور اللہ نے اصحاب کہف کا قصہ بیان کردیا تو آخر میں اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو یہ بات بتادیں کہ اصحاب کہف کے واقعہ سے بڑھ کر روشن دلیل اور برہان نبوت عطا کر دے گا۔ چناچہ یہ وعدہ اللہ نے پورا کیا، تمام انبیاء کے علوم بلکہ ماضی اور مستقبل کے سارے علمی خزانے اللہ نے آپ کو عطا فرما دیئے۔ اصحاب کہف کے واقعہ کے اظہار سے آپ کو نبوت کی سچائی کا اتنا قوی ثبوت نہیں ملتا جتنا تمام انبیاء مرسلین کے علوم و گزشتہ اور آئندہ کے واقعات و حالات کے علم عطا فرمانے سے ملتا ہے اور بعض کا قول ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے کہ جب ان شاء اللہ کہنا بھول جائو اور پھر یاد آجائے تو ان شاء اللہ کہنے کے بعد یہ بھی کہو ” عسیٰ ان یھدین ربی لا قرب من ھذا رشدًا “…
Top