Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 64
قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ١ۖۗ فَارْتَدَّا عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا قَصَصًاۙ
قَالَ : اس نے کہا ذٰلِكَ : یہ مَا كُنَّا نَبْغِ : جو ہم چاہتے تھے فَارْتَدَّا : پھر وہ دونوں لوٹے عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمَا : اپنے نشانات (قدم) قَصَصًا : دیکھتے ہوئے
(موسی نے) کہا یہی تو وہ (مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے
(64)” قال “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ” ذلک ماکنا نبغ “ کہ یہی ہماری مطلوب شدہ جگہ تھی۔ ” فارتد علی اثارھما قصصا “ وہ واپس اپنے اپنے قدموں کے نشانات کے بل لوٹے اور اس جگہ کو تلاش کرنے لگے۔ پھر انہوں نے اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو پالیا۔ بعض نے کہا کہ وہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ تھا۔ صحیح وہی ہے جو تاریخ میں آیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس سے مراد حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں اور ان کا نام بلیابن ملکان ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ بنی اسرائیل میں سے تھے۔ بعض نے کہا کہ یہ شہزادہ تھے جو تارک الدنیا ہوگئے تھے اور خضر (علیہ السلام) لقب تھا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کو خضر کہنے کی وجہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خضر کو خضر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ خضر (علیہ السلام) جب خشک زمین پر خشک گھاس پر بیٹھ جاتے تو وہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگتی تھی۔ مجاہد کا قول ہے کہ جس جگہ حضرت خضر (علیہ السلام) نماز پڑھتے تھے اس کے گرد اگر د سبزہ ہی سبزہ ہوجاتا تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے چت لیٹا ہے، کپڑے کا کچھ حصہ سر کے نیچے دبا ہے اور کچھ ٹانگوں کے نیچے اور ایک روایت میں ہے کہ اس وقت خضر (علیہ السلام) وسط سمندر میں ایک جھالر دار سبزمسند بچھائے نماز پڑے رہے تھے۔
Top