Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 119
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا١ۙ وَّ لَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ
اِنَّا : بیشک ہم اَرْسَلْنَاکَ : آپ کو بھیجا بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ بَشِيرًا ۔ وَنَذِيرًا : خوشخبری دینے والا۔ ڈرانے والا وَلَا تُسْئَلُ : اور نہ آپ سے پوچھا جائے گا عَنْ : سے اَصْحَابِ : والے الْجَحِيمِ : دوزخ
(اے محمد ﷺ ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی
119۔ (آیت)” انا ارسلناک بالحق “ یہاں بالحق بمعنی بالصدق ہے (یعنی حق سچ کے ساتھ ہم نے آپ کو بھیجا ہے) ” ویستنبئونک احق ھو قل ای وربی انہ لحق “ یعنی ۔ وہ سچ ہے ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں بالحق کے معنی ہیں کہ قرآن کے ساتھ اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے (آیت)” بل کذبوا بالحق لما جاء ھم “ ابن کیسان (رح) فرماتے ہیں بالحق کا معنی اسلام اور اس کے احکام ہیں اور اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے (آیت)” وقل جاء الحق “ حضرت مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ اس کا معنی ہے کہ ہم نے آپ کو بےفائدہ و فضول نہیں بھیجا ، ہم نے صرف آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت)” وما خلقنا السموت والارض وما بینھما الا بالحق “۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” بشیرا “ یعنی میرے دوستوں کو اور میرے فرمانبرداروں کو اچھے اجر وثواب کی خوشخبری دینے والا (ونذیرا) ڈرانے والا اپنے دشمنوں کو اور گناہ گاروں کو عذاب الیم سے ڈرانے والا ہے ” ولا تسال “ یہ (فعل) نہی معروف ہے ۔ حضرت عطاء (رح) نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت فرمائی کہ بیشک ایک دن حضور ﷺ نے فرمایا ، اے کاش ! مجھے معلوم ہوجاتا میرے والدین کسی حال میں ہیں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا ” لاتسئل “ فرمانا اس طرح ہے جیسے عرب کا محاورہ ہے ” لاتسال عن شر فلان فانہ فوق ماتحسب “ کہ فلاں کی برائی کے بارے میں نہ پوچھ وہ تیرے گمان سے بھی اوپر ہے اور یہ ” لاتسئل “ نہی نہیں ہے اور دوسروں نے ” لاتسئل “ پیش کے ساتھ پڑھا ۔ فعل نفی کے طور پر معنی ہوگا آپ ان کے بارے میں مسئول نہیں ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” فانما علیک البلاغ وعلینا الحساب “ یعنی تبلیغ دین و احکام آپ کے ذمے ہے اور حساب وکتاب ہمارے ذمہ رہا ۔ 121۔ (آیت)” عن اصحاب الجحیم “ جحیم بڑی آگ کو کہا جاتا ہے ۔
Top