Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 201
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَّفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں حَسَنَةً : بھلائی وَّقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
اور بعضے ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو
(تفسیر) 201۔: (آیت)” ومنھم من یقول ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ مؤمنین (یہ کہتے ہیں) مفسرین نے (اس دعا میں ذکر کی گئی) ہر دو حسنہ کے بارے میں اختلاف کیا ہے سیدنا علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں (آیت)” فی الدنیا حسنہ “ سے مراد نیک بیوی ہے اور (آیت)” فی الاخرۃ حسنہ “ سے مراد حورعین ہیں ، حضرت عبداللہ بن عمروبن ابی العاص ؓ بیان کرتے ہیں وہ حضور اقدس ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ـحضور اقدس ﷺ نے فرمایا دنیا ساری کی ساری نفع اٹھانے کا سامان ہے اور اس کا بہترین متاع نیک بیوی ہے حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں (آیت)” فی الدنیا حسنۃ “ سے مراد علم اور عبادت ہے اور (آیت)” فی الاخرۃ حسنۃ “ سے مراد جنت اور (اس کا) دیکھنا ہے ، علامہ سدی (رح) اور ابن حبان (رح) فرماتے ہیں (آیت)” فی الدنیا حسنۃ “ سے مراد رزق حلال اور عمل صالح ہے اور (آیت)” فی الاخرۃ حسنۃ “ سے مراد بخشش اور ثواب ہے۔ حضرت ابوامامہ ؓ حضور اقدس ﷺ سے روایت کرتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمـ فرماتے ہیں کہ میرے دوستوں سے میرے نزدیک قابل رشک وہ مؤمن ہے جو قلیل المال ہے نماز سے اسے خوب حصہ حاصل ہے اپنے رب کی عبادت اچھی طرح کرتا ہے کہ پوشیدہ طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہوں لوگوں میں گمنام ہو اس کی طرف (بوجہ عدم شہرت کے) انگلیوں کے ساتھ اشارہ نہ کیا جاتا ہو اور اس کا رزق (معیشت) برابر سرابر ہو (یعنی ضرورت کی حد تک مال رکھتا ہو جس سے اس کی ضروریات پوری ہوتی ہوں) اور اتنے سے رزق پر قانع ہو ، اس کے بعد حضور ﷺ نے ہاتھ مبارک کے ساتھ تیزی سے اشارہ کرکے فرمایا کہ یوں اسے جلدی موت آجائے اس پر رونے والے تھوڑے ہوں اور اس کی میراث بھی تھوڑی ہو۔ حضرت قتادہ (رح) اس آیت کریمہ کہ (آیت)” فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ “ کا معنی ہے دنیا میں عافیت اور آخرت میں عافیت ۔ حضرت عوف ؓ اس آیت سے متعلق فرماتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام قرآن کریم عطا فرمایا ہو، اہل و عیال بخشے ہوں اور مال ومنال دیا ہو ، پس یقینا اس کو ” حسنۃ فی الدنیا اور حسنۃ فی الاخرۃ “ دی گئی ۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ (کمزوری میں) پرندہ کے بچہ کی طرح ہو رہا ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ سے کیا مانگتا ہے ؟ اس نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں کہا کرتا تھا یا اللہ ! تو جو کچھ آخرت میں مجھے سزا دینا چاہتا ہے وہ سزا مجھے دنیا ہی میں دے دے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمـ نے فرمایا سبحان اللہ تو اس (دنیا والے عذاب) کی طاقت نہیں رکھتا تو نے یہ کیوں نہ کہا اے اللہ ، ہمیں دنیا میں خیر و خوبی عطا فرما اور آخرت میں بھی خیر و خوبی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمـ بہت زیادہ فرماتے تھے (آیت)” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ ۔ یحییٰ بن عبید نے سائب کے والد عبداللہ بن سائب ؓ سے روایت کی انہوں نے حضور اقدس ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ رکن بنی جمح اور رکن اسود کے درمیان یہ دعا فرما رہے تھے (آیت)” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ ۔
Top