Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 205
وَ اِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْهَا وَ یُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ
وَاِذَا : اور جب تَوَلّٰى : وہ لوٹے سَعٰى : دوڑتا پھرے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین لِيُفْسِدَ : تاکہ فساد کرے فِيْهَا : اس میں وَيُهْلِكَ : اور تباہ کرے الْحَرْثَ : کھیتی وَ : اور النَّسْلَ : نسل وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : ناپسند کرتا ہے الْفَسَادَ : فساد
اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین پر دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کر دے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا
(تفسیر) 205۔: (آیت)” واذا تولی “ جب پیٹھ پھیری اور آپ سے اس نے منہ پھیرا (آیت)” سعی فی الارض “ اس (زمین) میں عمل کیا بعض نے کہا اس (زمین) میں چلا (آیت)” لیفسد فیھا “ ابن جریج (رح) فرماتے ہیں قطع رحمی کی اور مسلمانوں کا خون بہایا (آیت)” لیفسد فیھا “ کا یہ معنی ہے (آیت)” ویھلک الحرث والنسل “ اور یہ اس طرح کہ اخنس اور قبیلہ ثقیف کے درمیان مخالفت ومخاصمت تھی ، پس اخنس رات کو آیا اور ان کی کھیتوں کو جلا ڈالا اور ان کے جانوروں کو ہلاک کردیا ، مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ اخنس طائف کی طرف اپنے مال کے تقاضا کے لیے جو اس نے کسی مقروض سے لینا تھا گیا ، پس اس مقروض نے غلہ کے کھلیاں کو آگ لگا دی اور اس کی گدھی کے اعضاء کاٹ دیئے ، ” والنسل “ ہر جانور کی نسل اور انسان بھی اسی سے ہیں حضرت ضحاک (رح) فرماتے ہیں (آیت)” واذا تولی “ کا معنی ہے یعنی جب کسی امر کا مالک بن جاتا ہے اور والی (حکمران) بن جاتا ہے (آیت)” سعی فی الارض “ (یعنی زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتا ہے) حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ (آیت)” واذا تولی سعی فی الارض “۔ کا معنی ہے یعنی جب کسی امر کا والی بن جاتا ہے تو زیادتی اور ظلم والا عمل کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بارش روک لیتا ہے اور کھیتی اور نسل ہلاک ہوجاتی ہے ، (آیت)” واللہ لا یحب الفساد “۔ اللہ تعالیٰ فساد پر ارضی نہیں ہے ، سعید بن مسیب (رح) فرماتے ہیں ” درھم “ (وغیرہ) کاٹتا یعنی مالی ڈاکہ ڈالنا بھی زمین میں فساد ڈالنا ہے ۔
Top