Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 228
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١ؕ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠ ۧ
وَالْمُطَلَّقٰتُ
: اور طلاق یافتہ عورتیں
يَتَرَبَّصْنَ
: انتظار کریں
بِاَنْفُسِهِنَّ
: اپنے تئیں
ثَلٰثَةَ
: تین
قُرُوْٓءٍ
: مدت حیض
وَلَا يَحِلُّ
: اور جائز نہیں
لَهُنَّ
: ان کے لیے
اَنْ يَّكْتُمْنَ
: وہ چھپائیں
مَا
: جو
خَلَقَ
: پیدا کیا
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَرْحَامِهِنَّ
: ان کے رحم (جمع)
اِنْ
: اگر
كُنَّ يُؤْمِنَّ
: ایمان رکھتی ہیں
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَ
: اور
الْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یوم آخرت
ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ
: اور خاوند ان کے
اَحَقُّ
: زیادہ حقدار
بِرَدِّھِنَّ
: واپسی ان کی
فِيْ ذٰلِكَ
: اس میں
اِنْ
: اگر
اَرَادُوْٓا
: وہ چاہیں
اِصْلَاحًا
: بہتری (سلوک)
وَلَهُنَّ
: اور عورتوں کے لیے
مِثْلُ
: جیسے
الَّذِيْ
: جو
عَلَيْهِنَّ
: عورتوں پر (فرض)
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
وَلِلرِّجَالِ
: اور مردوں کے لیے
عَلَيْهِنَّ
: ان پر
دَرَجَةٌ
: ایک درجہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے رہیں اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کو جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں اور عورتوں کو حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر البتہ مردوں کو عورتوں پر فضلیت ہے اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے
228۔ (آیت)” والمطلقات “ اپنے خاوندوں کی رسیوں (جکڑبندیوں) سے چھوٹی ہوئی ” یتربصن “ انتظار کریں (آیت)” فانفسھن ثلاثۃ قروئ “ پس نکاح نہ کریں، قروء قرء کی جمع ہے قرع کی طرح اس کی جمع ” قلت۔۔۔۔ اقرؤ“۔ اور جمع کثرت ” اقرائ “ ہے ۔ وضاحت : ۔ جمع قلت وہ ہے جو دس افراد سے کم پر بولی جائے اور جمع کثرت وہ ہے جو دس افراد یا اس سے زیادہ پر بولی جائے، قرء کے معنی ہیں اہل علم نے اختلاف کیا ہے، ایک جماعت کا مؤقف ہے کہ اس سے مراد حیض ہے، حضرت عمر ؓ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے ، حضرت حسن (رح) ، حضرت مجاہد (رح) بھی یہی فرماتے ہیں ، اوزاعی (رح) ، حضرت ثوری (رح) اور اصحاب الرای اسی طرف گئے ہیں ، ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے مستحاضہ (جس عورت کو خون بلاوقفہ مسلسل جاری رہے) کو فرمایا تھا ” دعی الصلوۃ ایام اقرائک “۔ یعنی حیض کے دونوں کی نماز چھوڑ دے ، اس حدیث شریف میں حضور اقدس ﷺ نے حیض کو لفظ اقراء سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ عورت ایام حیض کی نماز چھوڑتی ہے ۔ اور ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ قرء سے مراد طہر ہیں ، یہ قول حضرت زید بن ثابت ؓ عبداللہ بن عمر ؓ ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ہے اور یہی فقہائے سبعہ کا اور امام زہری (رح) کا ہے ، ربیعہ ، (رح) امام مالک (رح) ، امام شافعی (رح) نے بھی یہی کہا ہے ۔ ان حضرات نے اس سے دلیل دی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، جب وہ حالت حیض میں تھی ، حضور اقدس ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو فرمایا کہ اپنے بیٹے کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے حتی کہ وہ پاک ہوجائے ، اس کے بعد چاہے تو اسے اپنے پاس روک رکھے اور چاہے تو ہاتھ لگانے (صحبت کرنے) سے پہلے طلاق دے دے ، پس یہ ہے وہ عدت جس سے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کے لیے عورتوں کو طلاق دی جائے ، پس اس (واقعہ) نے خبر دی کہ زمانہ عدت جو ہے وہ طلاق ہے اور لغت کی جانب سے قول شاعر حجت ہے ۔ ففی کل عام انت جاشم غزوۃ تشد لا قصاھا عزیم عرائکا : مورثۃ مالا وفی الحی رفعۃ لما وضاع من قروء نسائکا : شاعر نے ان دو شعروں میں خطاب کرکے کہا کہ ہر سال تو جہاد کی طرف نکل جاتا ہے اور بیویوں سے صحبت نہیں کرتا جس سیا ن کے اقراء ضائع ہوجاتے ہیں ، خاوند کے سفر پر جانے سے اقراء کا ضیاع اس وقت ہوگا جب اقراء سے مراد طہر لیا جائے گا نہ کہ زمانہ حیض ، اختلاف کا نتیجہ اس وقت ظاہر ہوگا جب عدت بیٹھنے والی تیسرے حیض میں داخل ہوگی تو اس کے قول کے مطابق جو عدت طہر سے شمار کرتے ہیں ، عدت گزر جائے گی کیونکہ جس طہر میں طلاق واقع ہوئی ہے اس طہر کے بقیہ حصہ کو قرء میں شمار کرتے ہیں ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب مطلقہ عورت تیسرے حیض میں داخل ہوگی تو وہ عورت خاوند سے بری ہے اور خاوند اس عورت سے بری ہے اور جو اس طرف گئے ہیں کہ اقراء سے مراد حیض ہے وہ کہتے ہیں کہ عدت اس وقت تک نہ گزرے گی جب تک کہ عورت تیسرے حیض سے پاک نہ ہوگی اور یہ اختلاف اس حیثیت سے ہے کہ قرء کا نام حیض اور طہر دونوں پر بولا جاتا ہے ، جیسے کہا جاتا ہے ” اقرء ت المراۃ “ جب وہ حیض والی ہوجائے اور کہا جاتا ہے ” اقرات المراۃ “ جب وہ پاک ہوجائے اور اس کی اصل میں انہوں نے اختلاف کیا تو ابو عمرو بن العلاء اور ابو عبیدہ (رح) نے کہا کہ اصل میں کسی شئی کے آنے اور جانے کے وقت کو کہا جاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے ” رجع فلان لقرئہ والقارئہ “ فلاں اپنے وقت پر واپس لوٹا ، یہ جملہ اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے وقت پر واپس لوٹے اور اسی طرح کہا جاتا ہے ” ھذا قاری الریاح “ یہ ہواؤں کے چلنے کا وقت ہے ، مالک بن حرث ہذلی فرماتے ہیں ” کرھت العقر عقر بنی سلیل “ کہ ” اذا ھبت لقارئھا الریاح “ ترجمہ : میں نے بنو سلیل کی منزل کو ناپسند سمجھا ، جب ہوائیں اپنے وقت پر چلیں اس شعر کے دوسرے حصہ میں قارء کا لفظ وقت کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور قرء بمعنی وقت حیض اور طہر دونوں کے لیے موزوں ہے کیونکہ دونوں اپنے وقت پر آتے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ قرء بمعنی بند کرنے اور جمع کرنے کے ہے ، عرب والے کہتے ہیں ، ” ماقرات الناقۃ سلا “ قط یعنی اونٹنی نے اپنے رحم کو بچے پر جمع نہ کیا ، یہاں عرب کے محاورہ میں قرات بمعنی جمع کرنے کے ہیں اور اسی معنی میں یہ محاورہ ہے ۔ ” قریت الماء فی المقراہ “ یعنی میں نے پانی حوض میں جمع کیا ، (یہاں ” قریت “ کا معنی میں نے جمع کیا سے کیا گیا) قریت کے لفظ میں ہمزہ چھوڑ دیا گیا ، لہذا قرء “ اس مقام پر خون کے رک جانے اور جمع ہوجانے کے معنی میں ہے ۔ پس اس معنی کی بنیاد پر طہر کے معنی کو ترجیح ہوگی کیونکہ طہر خون کو روکتا اور جمع کرتا ہے اور حیض اس خون کو چھوڑ دیتا ہے عدتوں میں مجموعی طور پر حکم یہ ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے چاہے فرقت طلاق سے واقع ہوئی ہو یا خاوند کی موت سے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (کہ حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا وضع ہونا ہے) اور اگر حاملہ نہ ہو تو دیکھا جائے گا کہ میاں بیوی میں فرقت موت سے واقع ہوئی ہے تو عورت پر لازم ہے کہ چار ماہ دس دن عدت بیٹھے چاہے خاوند دخول سے پہلے مرجائے یا دخول کے بعد اور برابر ہے کہ عورت ایسی عمر میں میں ہو کہ اس کو حیض آتا ہے یا ان عورتوں میں سے ہو جن کو (چھوٹے یا بڑے ہونے کی وجہ سے) حیض نہیں آتا ، اللہ تعالیٰ کجے اس فرمان کے مطابق (اور جو تم میں سے مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو (بطور عدت کے چار ماہ دس دن روکے رکھیں) اور اگر میاں بیوی میں فرقت طلاق کی وجہ سے ہوئی ہے تو پھر دیکھا جائے گا کہ اگر طلاق دخول سے پہلے واقع ہوئی تو اس عورت پر کچھ عدت نہیں ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق (جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو) پھر تم ان کو ہاتھ لگانے سے (یعنی صحبت کرنے سے) پہلے طلاق دے دو پھر تمہارے لیے ان عورتوں پر کچھ عدت نہیں ، جو وہ عدت گزاریں) اگر طلاق دخول کے بعد واقع ہوئی ہے تو پھر دیکھا جائے گا کہ عورت کو ابھی تک حیض بالکل نہیں آیا یا عورت عمر کے اس حصہ کو پہنچ چکی ہے جس میں حیض بند ہوجاتا ہے تو ایسی عورت کی عدت تین ماہ ہے ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق (اور وہ جو حیض آنے سے مایوس و ناامید ہوگئی ہیں تمہاری عورتوں میں سے (ان کی عدت میں) اگر تم کو شبہ پڑے تو ان کی عدت تین ماہ ہے) اور اگر وہ (مطلقہ) ان عورتوں میں سے جن کو حیض آتا ہے تو اس کی عدت تین حیض ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق (کہ مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو (بطور عدت کے) تین حیض روکے رکھیں) اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد (آیت)” یتربصن بانفسھن “ لفظ کے لحاظ سے خبر اور معنی کے لحاظ سے امر ہے اور باندی اگر حاملہ ہے تو آزاد عورت کی طرح اس کی عدت وضع حمل ہے اور باندی اگر غیر حاملہ ہے تو خاوند فوت ہونے کی صورت میں اس کی عدت دو ماہ پانچ راتیں ہیں اور طلاق کی صورت میں اگر باندی کو حیض آتا ہے تو عدت دو حیض ہے اور اگر باندی کو حیض نہیں آتا تو عدت دیڑھ ماہ ہے اور کہا گیا ہے کہ حیض کی طرح دو ماہ عدت ہے حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ غلام دو عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے اور دو طلاقیں دے سکتا ہے اور باندی دو حیض عدت بیٹھے اگر اس کو حیض نہ آتا ہو تو دو ماہ عدت بیٹھے یا ڈیڑھ ماہ ۔ (آیت)” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “۔ حضرت عکرمہ (رح) فرماتے ہیں اس سے مراد حیض ہے اور وہ اس وقت جب خاوند رجوع کا ارادہ کرے ، پس وہ عورت کہے کہ میں تین حیض گزار چکی ہوں ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حمل ہے اور اس آیت کا معنی ہے کہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کو چھپائے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے رحم میں پیدا کیا ہے ۔ حیض یا حمل تاکہ خاوند کا حق جو رجوع یا ولاد سے متعلق ہے باطل ہوجائے ، (آیت)” ان کن یؤمن باللہ والیوم الاخر “ اس کا معنی یہ ہے کہ (شریعت کے اس حکم پر عمل کرنا) مؤمن کا یہ شیوہ ہے اگرچہ مومنہ کافرہ دونوں اس حکم میں برابر ہیں ، اس کی مثال ایسے ہے جیسے کہ تو کہے میرا حق ادا کر اگر تو مومن ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ حق ادا کرنا ایمان والوں کا طریقہ ہوتا ہے ” وبعولتھن “ ان کے خاوند بعولۃ جمع بعل کی ہے جیسے فحولۃ جمع فحل کی ہے، خاوند کو بعل اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بیوی کے کاموں کا نگران وذمہ دار ہے ، بعل کا اصل معنی سردار داور مالک ہے ” احق بردھن “ زیادہ حق دار ہیں ، بیویوں کو اپنی طرف لوٹانے کے بارے میں ” فی ذالک “ حالت عدت میں ” ان ارادوا اصلاحا “ رجوع کرنے سے ان کی مراد اصلاح اور حسن معاشرت ہو نہ کہ نقصان پہنچانا ، جیسا کہ وہ زمانہ جاہلیت میں کرتے تھے کہ ان میں سے کوئی آدمی بیوی کو طلاق دیتا پس جب عدت گزرنے کے قریب ہوتی تو رجوع کرلیتا پھر کچھ مدت چھوڑ دیتا پھر اس کو طلاق دے دیتا پھر جب عدت گزرنے کے قریب ہوتی بیوی سے رجوع کرلیتا پھر کچھ عرصہ اس کو طلاق دے دیتا ، اس سے اس کا مقصد بیوی پر عدت کو لمبا کرنا ہوتا تھا ، ” ولھن “ عورتوں کے لیے خاوندوں پر ” مثل الذین علیھن “ خاوندوں کے لیے (یعنی جس طرح خاوندوں کے حقوق عورتوں پر اسی طرح عورتوں کے حقوق بھی خاوندوں پر ہیں) ” بالمعروف “ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اس کے معنی کے بارے میں فرماتے ہیں میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میں بیوی کی خاطر بن سنور کر رہوں جس طرح وہ میری اس بات کو پسند کرتی ہے کہ وہ میری خاطر بن سنور کر رہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف “۔ سوید نے حکیم بن معاویہ قشیری سے روایت کی ، حکیم نے اپنے باپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی ۔ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا جب تو خود کھلائے تو اس کو کہلائے اور جب تو خود کپڑا پہنے بیوی کو بھی پہنائے ، اس کو چہرے پر نہ مارے ، اس کو برا نہ کہے اور اس سے جدائی اختیار نہ کرے مگر گھر کی حدود کے اندر اندر ۔ حاتم بن اسماعیل مدنی نے خبر دی ، وہ جعفر بن محمد سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے کہتے ہیں کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس گئے، پس میں نے عرض کی ہمیں حضور ﷺ کے حج مبارک کے بارے میں بیان کیجئے ۔ پس انہوں نے حجۃ الوداع کا پورا قصہ بیان کیا ، یہاں تک کہ حضور اقدس ﷺ کا نویں ذوالحجہ کا خطبہ بیان کیا ، فرمایا دو عورتوں کے معاملہ میں خدا کا خوف کرو، بیشک تم نے ان کو اللہ تعالیٰ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ان کی شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے اور تمہارا ان بیویوں کے ذمہ یہ حق ہے کہ وہ کسی کو تمہارے بستروں پر نہ آنے دیں جو تمہیں پسند نہیں (یعنی گھر میں داخل نہ ہونے دیں) اگر وہ ایسا کریں تو ان کو مارو مگر وہ مار اذیت ناک بستروں پر نہ آنے دیں جو تمہیں پسند نہیں (یعنی گھر میں داخل نہ ہونے دیں) اگر وہ ایسا کریں تو ان کو مارو مگر وہ مار اذیت ناک نہ ہو اور ان عورتوں کے لیے تمہارے اوپر لازم ہے ان کا رزق ان کے کپڑے معروف طریقہ پر اور بیشک میں چھوڑ چلا ہوں تمہارے اندر وہ کچھ اگر تم اس کو مضبوطی سے تھام لو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن کریم اور تم میرے بارے میں پوچھے جاؤ گے ۔ پس تم کیا کچھ کہنے والے ہو گے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے فرمایا ہم گواہی دیں گے بیشک آپ نے پہنچا دیا اور اپنی امت کی ” امانۃ الہیہ کو “ ادا کردیا خیر خواہی کی ، حضور ﷺ نے اپنی انگشت سبابہ کے ساتھ اشارہ فرمایا کہ اس کو آسمان کی طرف بلند فرماتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے ، اے اللہ ! تو گواہ ہوجا یہ تین دفعہ فرمایا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا (ایمان والوں میں کامل ترین ایمان والا وہ شخص ہے جو ان میں سے اچھے اخلاق والا ہے اور تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیوی کے حق میں اچھے ہیں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ” وللرجال علیھن درجہ “ ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ (کہ مردوں کا عورتوں پر ایک درجہ فائق ہونا) اس لیے ہے کہ مرد عورت کو حق مہر ادا کرتا ہے اور اس پر خرچ کرتا ہے ، حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں (مردوں کا ایک درجہ فائق ہونا) جہاد کے اعتبار سے ہے (کہ مرد جہاد کرتا ہے عورت جہاد کی فضیلت سے محروم ہے) بعض نے کہا ہے (مرد کی بالاتری) عقل کے اعتبار سے بعض نے کہا ہے شہادت کے اعتبار سے بعض نے کہا ہے کہ میراث کے لحاظ سے (کہ مرد بنسبت عورت کے زیادہ میراث پاتا ہے) بعض نے کہا ہے باعتبار دیت کے کہا گیا کہ طلاق کے لحاظ کہ طلاق کا معاملہ مرد کے ہاتھ میں ہے ، بعض نے کہا (کہ رجعی طلاق میں) رجوع کرنے کے اعتبار سے سفیان اور زید بن اسلم ؓ فرماتے ہیں امارہ امیر بننے کئے لحاظ سے قتیبی (رح) فرماتے ہیں (آیت)” وللرجال علیھن درجہ “۔ کا معنی ہے حق میں فضیلت کے لحاظ سے (آیت)” واللہ عزیز حکیم “۔ ہمیں احمد بن محمد بن عیسیٰ برنی نے خبر دی (وہ کہتے ہیں) ہمیں حذیفہ نے خبر دی (وہ کہتے ہیں) ہمیں سفیان نے خبر دی سفیان نے اعمش سے روایت کی ، اعمش نے ابو ظبیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی کہ بیشک معاذ بن جبل ایک جہاد میں نکلے جس میں حضور ﷺ نے ان کو بھیجا تھا ، پھر واپس ہوئے وہاں لوگوں کو دیکھا تھا کہ بعض بعض کو سجدہ کرتے تھے حضرت معاذ ؓ نے اس کا ذکر حضور ﷺ سے کیا ، پس حضور ﷺ نے فرمایا اگر کسی کو میں حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ۔
Top