Tafseer-e-Baghwi - An-Noor : 28
فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى یُؤْذَنَ لَكُمْ١ۚ وَ اِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَجِدُوْا : تم نہ پاؤ فِيْهَآ : اس میں اَحَدًا : کسی کو فَلَا تَدْخُلُوْهَا : تو تم نہ داخل ہو اس میں حَتّٰى : یہانتک کہ يُؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُم : تمہیں وَاِنْ : اور اگر قِيْلَ لَكُمُ : تمہیں کہا جائے ارْجِعُوْا : تم لوٹ جاؤ فَارْجِعُوْا : تو تم لوٹ جایا کرو هُوَ : یہی اَزْكٰى : زیادہ پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : وہ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اگر تم گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو جب تک تم کو اجازت نہ دی جائے اس میں مت داخل ہو اور اگر یہ کہا جائے کہ (اس وقت) لوٹ جاؤ تو لوٹ جایا کرو یہ تمہارے لئے پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام تم کرتے ہو خدا سب جانتا ہے
28۔ فان لم تجدوا فیھا احدا فلاتدخلوھا، اگر تم میں سے کوئی بھی گھر میں موجود نہ ہو تو اس میں داخل ہونے لیے اجازت طلب کرے۔ اگر اجازت نہ ملے تو اس میں داخل نہ ہو۔ حتی یوذن لکم وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا، ، جب کوئی گھر میں موجود ہو تو اگر وہ کہیں کہ واپس لوٹ جاؤ تو واپس لوٹ جانا چاہیے، دروازے پر بیٹھ نہیں جانا چاہیے۔ ھو ازکی لکم، وہیں سے واپس لوٹ جانا بہتر ہے اور تمہارے لیے فائدہ مند ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اگر گھر میں داخلے کی اجازت نہ ملے تو گھر کے دروازے پر بیٹھ جانا نہیں چاہیے، کیونکہ گھرکے دروازوں پر عام طور پر حاجت مند لوگ بیٹھتے ہیں ۔ ہاں اگر کوئی میں موجود نہ ہو تو پھر اس کے انتظار میں بیٹھ جانا جائز ہے۔ حضرتابن عباس ؓ انصار کے دروازے پر احادیث کے حصول کے لیے آیا کرتے تھے ۔ اور انصاری کے دروازے میں ان کے انتظار میں بیٹھ جایا کرتے تھے داخل ہونے کی اجازت طلب نہ کرتے۔ انصاری فرماتے، اے رسول اللہ، کے چچا کے بیٹے۔ آپ نے مجھے اطلاع دے دی ہوتی، حضرت ابن عباس ؓ عنہمافرماتے ہیں کہ ہم کو اسی طرح طلب علم کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت سہل بن سعد ساعی سے روایت ہے کہ ایک بار ایک شخص نے حجرے کے پردے سے رسول اللہ کو اندر جھانک کر دیکھا تو اس وقت رسول اللہ کے ہاتھ میں کوئی نوک دار لوہے کی چیز تھی، حضور نے فرمایا اگر مجھے معلوم ہوجاتا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے میں اس کی آنکھ میں چبھودیتا طلب اجازت کا حکم توفقط نہ دیکھنے کے لیے ہی دیا گیا ہے۔ حضر ت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر کوئی شخص تمہاری اجازت کے بغیر تم کو جھانک کر دیکھے اور تم کو کنکری اس کو پھینک مارو اور کنکری سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تمہارا کوئی جرم نہیں۔ واللہ بماتعملون علیم۔ اجازت کے ساتھ داخل ہونا اور بغیر اجازت کے دخول ہونا۔ جب آیت استیذان نازل ہوئی توحضر ت ابوبکر کہنے لگے کہ وہ گھر کیسے ہوں گے ۔ قریش کے تاجر جو مکہ و مدینہ اور شام کے درمیان آتے جاتے ہیں۔ سردارن قریش وم کہ کے اترنے کے مقام مقرر ہوتے ہیں جنکے اندر کوئی رہتا نہیں۔ وہاں کسی سے اجازت داخلہ مانگیں گے اور کسی کو سلام کریں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
Top