Tafseer-e-Baghwi - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ : اللہ نُوْرُ : نور السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین مَثَلُ : مثال نُوْرِهٖ : اس کا نور كَمِشْكٰوةٍ : جیسے ایک طاق فِيْهَا : اس میں مِصْبَاحٌ : ایک چراغ اَلْمِصْبَاحُ : چراغ فِيْ زُجَاجَةٍ : ایک شیشہ میں اَلزُّجَاجَةُ : وہ شیشہ كَاَنَّهَا : گویا وہ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ : ایک ستارہ چمکدار يُّوْقَدُ : روشن کیا جاتا ہے مِنْ : سے شَجَرَةٍ : درخت مُّبٰرَكَةٍ : مبارک زَيْتُوْنَةٍ : زیتون لَّا شَرْقِيَّةٍ : نہ مشرق کا وَّلَا غَرْبِيَّةٍ : اور نہ مغرب کا يَّكَادُ : قریب ہے زَيْتُهَا : اس کا تیل يُضِيْٓءُ : روشن ہوجائے وَلَوْ : خواہ لَمْ تَمْسَسْهُ : اسے نہ چھوئے نَارٌ : آگ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ : روشنی پر روشنی يَهْدِي اللّٰهُ : رہنمائی کرتا ہے اللہ لِنُوْرِهٖ : اپنے نور کی طرف مَنْ يَّشَآءُ : وہ جس کو چاہتا ہے وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل (ایسی صاف و شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (بڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور خدا (جو مثالیں) بیان فرماتا ہے (تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
اللہ نور السموات کی تفسیر۔ 35۔ اللہ نور السموات والارض، ،، ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ آسمان و زمین کا ہادی ہے اس کی رہنمائی سب حق کی طرف چل رہے ہیں اور گمراہی سے نجات پا رہے ہیں ۔ ضحاک کا قول ہے کہ زمین و آسمان کو منور کرنے والاجیسا کہ کہاجاتا ہے اللہ نے آسمان کو منور کیا فرشتوں کو منور کیا، انبیاء کرام (علیہم السلام) سے۔ مجاہد کا قول ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔ ابی بن کعب اور حسن ابوالعالیہ کا قول ہے کہ آسمان اور زمین کو مزین کیا آسمان کو مزین کیا سورج کے ساتھ اور چاند ستاروں کے ساتھ اور زمین کو مزین کیا انبیاء ، علمائ، صلحائ، اور مومنین کے ساتھ اور بعض نے کہا کہ نباتات اور درختوں سے اس کو منور کیا اور بعض نے کہا کہ تمام اشیاء کو انہی سے منور کیا جیس ا کہ کہاجاتا ہے فلاں پر حمت یعنی اسی کی وجہ سے رحمت ہے۔ مثل نورہ میں نور کا مصداق۔ ” مثل نورہ ، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا نور ہے جو مومن کے دل میں ہوتا ہے۔ اور اس نور کے ساتھ وہ ہدایت پاتا ہے۔ جیسا کہ کہاجاتا ہے وہ اپنے رب ب کی طرف سے نور ہے۔ حضرت ابن مسعود پڑھتے تھے، مثل نورہ فی قلب المومن، سعید بن جبیر حضرت ابن عباس ؓ عنہماکاقول نقل کرتے ہیں کہ مثل نورہ ، سے مراد جو اللہ تعالیٰ نے مومن کو عطا کیا ہے بعض نے کہا کہ نور کی ضمیر مومن کی طرف راجع ہے عبارت اس طرح ہوگی ، ای مثل نورہ قلب المومن، حضرت ابی نے فرمایا کہ مومن کے دل کے نور کی صفت۔ یہ مومن وہ بندہ ہے جس کے دل کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایمان اور سینہ کے اندر قرآن جمادیا۔ حضرت ابی یوں پڑھتے تھے، مثل نور من امن بہ۔ ” المصباح فی زجاجہ، ، اس سے مراد قندیل ہے زجاج کا قول ہے کہ شیشے کے اندر نور اور آگ کی روشنی بہت زیادہ جھلکتی ہے۔ اس لیے لفظ زجاجہ ذکر کیا۔ پھر زجاجہ کا وصف زکر کیا، الزجاجۃ کانھا کوکب دری، ابوعمرو اور کسائی نے دری پڑھا ہے اور وہ پھینکنا ہے کیونکہ آسمان سے شیطان پر تارے برسائے جاتے ہیں۔ اس حالت کے ساتھ تشبیہ دی کیونکہ اس وقت یہ بہت زیادہ واضح اور روشن ہوجاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ جب ستاروں کو پھینکنے کے لیے ہاتھ میں فرشتے پکڑتے ہیں تو اس وقت ان کی روشنی تیز ہوجاتی ہے۔ بعض نے کہا کہ جب وہ دوبارہ روشن ہو اس کو در کہتے ہیں بعض نے کہا کہ جب وہ بلند ہوطلوع ہونے کے ساتھ تو اس کو در کہتے ہیں۔ اور جیسے کہاجاتا ہے ، در علینافلان، وہ ظاہر ہوا۔ اکثر نحاۃ کے نزدیک اگر در ہواتویہ لحن ہے کیونکہ کلام عرب میں فعیل کے فاء کے ضمہ کے ساتھ اور عین کے کسرہ کے ساتھ نہیں ہے اکثر حضرات نے فاء کے ضمہ کو ثقیل سمجھتے ہوئے فاء کے کسرہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ دوسرے قراء نے دال کے ضمہ اور یاء کی تشدید کے ساتھ بغیر ہمزہ کے اس کا معنی ہے اس کی بہت تیز روشنی ۔ در کی طرف اس کی نسبت اس وجہ سے کی کہ اس کی صفات اور اس کی حسنات کے باعث۔ اگرچہ کوکب کی روشنی موتی کی روشنی سے زیادہ ہوتی ہے لکن کوکب کی روشنی کی وجہ سے اس کو موتی پر فضیلت دی ہے بعض نے کہا کہ پانچ ستارے جو سب سے بڑے ہیں، ان میں سے کسی ایک ستارے کو کوکب دری کہاجاتا ہے۔ بعض حضرات نے کہا کہ اسکودوسرے ستاروں سے تشیہ دی ہے چاند وسورج کے ساتھ تشبیہ کیوں نہیں دی اس کا جواب یہ ہے کہ سورج چاند کو گرہن لگ جاتا ہے جبکہ ستارے گرہن میں نہیں آتے۔ ” یوقد، ، ابوجعفر ابن کثیر، ابوعمرو، یعقوب نے توقد، اور فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے ۔ من شجرۃ مبارکۃ زیتونہ، اس درخت کاتیل بہت بابرکت ہوتا ہے یہاں پر مضاف محذوف ہے اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے ، یکاد زیتھا یضی، شجرہ مبارکہ سے مراد زیتون کا درخت ہے جوکثیرالبرکت ہے اور اس میں بہت سارے منافع ہوتے ہیں۔ اس کاتیل چراغوں میں جلایاجاتا ہے اور نہایت مفید روشنی اس سے حاـصل ہوتی ہے اور اس کاتیل دوسرے کاموں میں بھی آتا ہے یہ بطور سالن کے بھی استعمال ہوتا ہے اس کاتیل نکالنے کے لیے خاص مشینری کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ہر شخص باآسانی اس سے تیل نکال سکتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ زیتون کے تیل سے ناسوراچھا ہوتا ہے چوٹی سے جڑ تک۔ اس کے درخت میں تیل ہی تیل ہوتا ہے۔ اسد بن ثابت اور ابی اسلم انصاری سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کے زیتون کاتیل کھاؤ اور استعمال کرو یہ درخت مبارک درخت ہے۔ لاشرقیۃ ولاغربیۃ کی تفسیر۔ لاشرقیۃ ولاغربیہ، ، اس کا ایک مطلب بعض مفسرین نے یہ نقل کیا ہے کہ اس کا درخت صرف مشرق میں واقع نہیں کہ صرف طلوع کے وقت اس پر روشنی پڑے اور نہ ہی صرف مغرب میں واقع ہے کہ صرف غروب ہوتے وقت اس پر روشنی پڑے اور طلوع ہوتے وقت روشنی نہ پڑے بلکہ وہ پہاڑ کی چوٹی یاکھلے آسمان میں وسیع میدان میں واقع ہے کہ ہر وقت اس پر دھوپ پڑتی ہے اس وجہ سے اس کے پھل نہایت پختہ اور تیل بہت صاف ہے۔ یعنی نہ تومشرق میں اور نہ ہی مغرب میں دونوں طرف سے حصہ لیتا ہے۔ اس وجہ سے اس کاتیل نہایت صاف و شفاف ہوتا ہے جیسا کہ کہاجاتا ہے فلاں نہ ہی بہت کالا ہے نہ سفید۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نہ تو وہ خالص کالا ہے اور نہ ہی وہ خالص سفید ہے۔ بلکہ اس میں یہ دونون چیزیں جمع ہیں۔ یہ رمان (انار) میں نہ زیادہ کھٹے ہیں اور نہ ہی میٹھے بلکہ اس میں حلاوۃ اور کھٹاس دونوں شامل ہیں۔ اسی طرح یہ زیتون بھی ہے۔ یہ قولابن عباس ؓ عنہماکا اور عکرمہ کا ہے۔ سدی اور ایک جماعت کے نزدیک اس کا یہ مطلب ہے کہ نہ وہ ایسے مقام میں ہے کہ ہر وقت اس پر دھوپ پڑتی ہو اور اس کو جلاڈالے اور نہ ایسی پوشیدہ جگہ میں ہے کہ سورج ہمیشہ اس سے غائب رہے کبھی اس پر دھوپ نہ پڑی ہو۔ اس وجہ سے وہ کچارہ گیا ہو۔ بعض حضرات نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ معتدل رہتا ہے کہ یہ مشرق میں نہیں کہ دھوپ اس کو ضرر دے اور نہ ہی مغرب میں کہ سردی اس کو نقصان پہنچائے۔ بعض حضرات نے کہا کہ وہ درخت نہ زمین کے مشرق میں واقع ہے اور نہ مغرب میں بلکہ درمیان میں ملک شام میں واقع ہے شام کا زیتون بہت عمدہ ہوتا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ ایسا کوئی درخت دنیا میں نہیں جو شرقی ہو نہ غربی، اللہ نے اپنے نور کو تشبیہ ایسے درخت زیتون سے دی جو مغرب میں بھی ہوا اور مشرق میں بھی ہو۔ اس سے زیتون کا درخت ہے جس سے اللہ نے اپنے نورکوتشبیہ دی ہے۔ یکاد زیتھا ، اس کاتیل، یضی، صاف ستھرا ہے۔ ولولم تمسہ النار، ، پہلے اس سے اس کو آگ پہنچ جائے۔ نور علی نور، اس میں پہلے چراغ کی روشنی پھر اس طاقچہ کی چمک کی روشنی۔ تمثیل کی وضاحت۔ اس تمثیل کے معنی میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض کا قول ہے کہ اس سے نورمحمدی کی تمثیل ہے۔ ابن عباس نے کعب احبار سے فرمایا کہ یہ آیت مثل نورہ کمشکوۃ کے معنی کی تشریح کرو۔ کعب احبار نے کہا کہ اللہ نے اس آیت میں اپنے نبی کی حالت بطور تمثیل بیان کی ہے۔ مشکوۃ سے مراد ہے رسول اللہ کا مبارک سینہ اور شیشہ سے مراد ہے آپ کا دل اور مصباح سے مراد ہے نبوت اور یکاد سے نورمحمد جو لوگوں کے لیے واضح ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ نے نبوت کا دعوی نہ بھی کیا ہوتاتب بھی قریب تھا کہ آپ کا نور جگمگانے لگتا اور لوگوں کے سامنے آپ کا نبی ہوناخود آجاتا۔ سالم سے روایت ہے کہ وہ ابن عمر سے اس آیت کے متعلق دریافت کرتے ہیں ، فرمایا کہ مشکوۃ سے مراد جوف محمد، سینہ مبارک، زجاجہ سے مراد آپ کا دل اور مصباح سے نور مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ڈالا اور شجرہ مبارکہ سے مراد ہیں کہ حضرت ابراہیم کے شرقی وغربی نہ ہونے سے مرادیہ ہے کہ حضرت ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی اور نور علی نور کا مطلب یہ ہے کہ ایک نورتوحضرت ابراہیم کے دل کا نور ہے اور دوسرا نور رسول اللہ کے دل کا نور ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، وسراجامنیرا، ، شجرہ مبارکہ سے مراد حضرت ابراہیم ہیں کیونکہ ان کی صلب میں سے بہت سے انبیاء کرام (علیہم السلام) آپ کے بعد گزرے ہیں حضرت ابراہیم نہ تو یہودی مذہب کے پیروکار تھے اور نہ عیسائی مذہب کے پیروکار تھے بلکہ دین حنیف پر تھے کیونکہ یہود مغرب کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اور نصاری مشرق کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے ، یکاد زیتھا یضی ولولم تمسسہ نارا، اس طرف اشارہ ہے کہ وحی آنے سے پہلے ہی رسول اللہ کے کمالات اور محاسن ظہور پذیر ہونے والے تھے۔ نور علی نور کی تفسیر۔ نور علی نور کا مطلب یہ ہے کہ نور اسل نور نسل کے ساتھ شامل ہوگیا۔ ایک تونورابراہیمی تھا پھر نورمحمدی اس کے ساتھ مل گیا، بعض حضرات نے کہا یہ مومن کے دل کے نور کی ایک تمثیل بیان کی ہے۔ ابوالعالیہ نے اس کی تفسیر حضرت ابی بن کعب کی طرف نسبت کرکے کی ہے کہ یہ مومن کی مثال ہے مومن کی ذات ایک مشکوۃ ہے زجاجہ مومن کا سینہ ہے مصباح اس کا دل ہے نورمصباح ایمان اور قرآن کی روشنی ہے جو مومن کے دل میں ہوتی ہے شجرہ مبارکہ سے یہ روشنی اخلاص اللہ کے مبارک درخت سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی سرسبز شاداب درخت جو گھنے باغ میں دوسرے درختوں سے گھرہوا کہ سورج کے طلوع و غروب کے وقت دھوپ سے محفوظ ہو، مومن بھی ہر طرح کے فتنہ سے محفوظ رہتا ہے۔ چار اوصاف اس کے خصوصی اوصاف ہوتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے اس کو کچھ ملتا ہے تو شکر ادا کرتا ہے نہیں ملتاصبر کرتا ہے۔ فیصلہ کرتا ہے تو انصاف کا کرتا ہے بات کہتا ہے توسچی کہتا ہے اس کا دل ایساچراغ ہوتا ہے جو آگ کو چھوجانے کے بغیر بھی ایسامعلوم ہوتا ہے کہ روشن ہوجانے کے قریب ہے یعنی ظہور حق سے پہلے ہی اس کی معرفت حق حاصل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس کا دل فطری طور پر حق پرست ہے وہ نوربالائے نور ہوتا ہے اس کا ایک قول نور ہوتا ہے اس کا علم ایک نور ہے اس کا آنانور ہے اور جانانور ہے اور قیامت کے دن وہ نور ہی کی طرف جائے گا۔ ابن عباس کا قول ہے کہ یہ اللہ کے نور کی مثال ہے جو مومن کے دل میں ہوتا ہے مومن کا دل فطرۃ ہدایت پر عمل کرتا ہے جب اس کو علم حاصل ہوجائے تو اس کی ہدایت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ نوربالائے نور ہوجاتا ہے یعنی مومن کا ایمان اور اس کا عمل نور ہی نور ہوجاتا ہے۔ سدی کا قول ہے کہ اس سے مرا د نور ایمان اور نور قرآن ہے ۔ حسن اور ابن زید نے کہا کہ یہ قرآن کی مثال ہے مصباح قرآن ہے جس طرح چراغ سے روشنی حاصل ہوجاتی ہے اسی طرح قرآن سے ہدایت حاصل ہوجاتی ہے۔ یھدی اللہ لنورہ من یشائ، حضرت ابن عباس ؓ عنہماکاقول ہے کہ اس سے مراد دین اسلام ہے یہ آنکھوں کا نور ہے بعض نے کہا اس سے مراد قرآن ہے۔ ویضرب اللہ لامثال للناس ، لوگوں کے لیے ان اشیاء کو بیان کرتے ہیں تاکہ ان کو سمجھنے میں آسانی ہو اور اس راستے کے پانے میں آسانی ہو۔ واللہ بکل شئی علیم۔
Top