Tafseer-e-Baghwi - An-Noor : 59
وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاِذَا : اور جب بَلَغَ : پہنچیں الْاَطْفَالُ : لڑکے مِنْكُمُ : تم میں سے الْحُلُمَ : (حد) شعور کو فَلْيَسْتَاْذِنُوْا : پس چاہیے کہ وہ اجازت لیں كَمَا : جیسے اسْتَاْذَنَ : اجازت لیتے تھے الَّذِيْنَ : وہ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : اللہ واضح لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهٖ : اپنے احکام وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : جاننے ولاا، حکمت والا
اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں تو ان کو بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیے جس طرح ان سے اگلے (یعنی بڑے آدمی) اجازت حاصل کرتے رہے ہیں اس طرح خدا تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
تفسیر۔ 59۔ واذابلغ الاطفال منکم الحلم، ، اس سے مراد احتلام ہے جو آزاد مردوں کی بلوغت کی نشانی ہے۔ فلیستاذنوا، ان کے پاس آنے کی تمام اوقات میں داخلے کی اجازت طلب کریں۔ کمااستاذن الذین من قبلھم ، آزاد اور بڑے لوگ۔ بعض نے کہا کہ ا س سے مراد ابراہیم، موسیٰ ، عیسیٰ (علیہ السلام) ہین۔ کذالک یبین اللہ لکم آیاتہ، ، آیات سے مراد دلائل ہیں بعض نے کہا کہ اس کے احکام مراد ہیں ۔ واللہ علیم، ان کے پیدائش کے متعلق تمام امور کو جانتے ہیں۔ حکیم ، ان تمام امور کی تدبیر کرنے والے ہیں۔ سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ آدمی کو اپنی ماں کے پاس بھی داخلے کی اجازت لے کرجانا چاہیے، اس آیت کا نزول اسی سلسلہ میں ہوا جب یہ آیت نازل ہوئی تو حذیفہ ؓ سے پوچھا کہ کیا وہ شخص اپنی والدہ کے پاس اجازت لے کرجاتا ہے انہوں نے فرمایا جی ہاں، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو وہ ایسی چیز بھی دیکھ سکتا ہے جو اس کو ناپسندیدہ ہو۔
Top