Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
(اے پیغمبر ﷺ اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا ان کے حال پر مہربانی کر کے یا انہیں عذاب دے کہ یہ ظالم لوگ ہیں
128۔ (آیت)” لیس لک من الامر شیئ “۔ (آیت)” لیس لک من الامر شیئ “۔ کا شان نزول) اس آیت کے شان نزول میں آئمہ کرام کا اختلاف ہے، بعض حضرات نے کہا کہ اس آیت کا نزول ” بئر معونہ “ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین پر ہوا اور وہ ستر قراء صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تھے جن کو آپ ﷺ نے جنگ احد سے چار ماہ بعد 4 ہجری صفر کے ماہ میں ستر قراء کو ان کی طرف بھیجا تاکہ ان کو قرآن کریم کی تعلیم دی ، ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے امیر منذر بن عمرو تھے مگر عامر بن طفیل (رح) نے ان سب قراء کو شہید کردیا ، آپ ﷺ کو جب یہ خیر پہنچی تو بہت رنج اور دکھ ہوا ، آپ ﷺ ایک ماہ تک ان قبائل والوں کے لیے بددعا کرتے رہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت)” لیس لک من الامر شیئ “۔ سالم اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جب آپ (علیہ السلام) فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے تھے تو یہ فرماتے ” اللھم العن فلانا ، فلانا ، فلانا “ کہ اے اللہ فلاں ، فلاں ، فلاں پر لعنت فرما یہ ” سمع اللہ لمن حمدہ “۔ کہنے کے بعد ارشاد فرماتے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ، (آیت)” اویتوب علیھم او یعذبھم فانھم ظالمون “۔ اور ایک قوم نے کہا کہ یہ احد کے دن کے بارے میں نازل ہوئی ، حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمـ کے رباعیہ دانت شہید ہوئے اور سر مبارک میں زخم پہنچا آپ ﷺ کا خون بہہ رہا تھا ، آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے کہ وہ قوم کیسے فلاح و کامیاب ہوگی جو اپنے نبی کو زخمی کریں اور دانت کو زخمی کر دے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرما رہے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت)” لیس لک من الامر شیئ “۔ عبدا للہ بن عمر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے احد کے دن ارشاد فرمایا اے اللہ ! لعنت فرما حارث بن ہشام پر ، اے اللہ ! لعنت فرما صفوان بن امیہ پر ، اس پر یہ آیت نازل فرمائی ، یہ اسلام لے آئے اور ان کا اسلام بہت ہی اچھا تھا ۔ محمد بن اسحاق (رح) ، کا بیان ہے کہ جب احد کے دن حضور اقدس ﷺ اور مسلمانوں نے دیکھا کہ کافروں نے مسلمانوں کے ناک ، کان اور آلات تناسل کاٹ کر سب کو مثلہ بنادیا تو کہنے لگے اگر اللہ نے ہم کو ان پر غلبہ عنایت کیا تو جیسا انہوں نے کیا ہے ہم بھی ایسا ہی کریں گے اور اسی طرح مثلہ بنائیں گے کہ کسی عرب نے کسی کے ساتھ ایسا نہ کیا ہوگا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے لیے مکمل استیصال (جڑ سے اکھاڑ دینے) کا ارادہ کرلیا تھا اور ان کے تباہ ہوجانے کی بددعا دینے کا ارادہ کیا تھا تو یہ آیت نازل ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ سب مسلمان ہوجائے گے ۔ (آیت)” لیس لک من الامر شیئ “۔ کا معنی ہے، (آیت)” لیس الیک “ آپ کی طرف اس کا کوئی اختیار نہیں ، جیسے اس آیت میں ” ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان “ اس سے مراد الی الایمان ہے (آیت)” اویتوب علیھم “۔ بعض نے کہا کہ اس کا معنی ہے جب تک وہ توبہ نہ کرلیں او یا تو حتی کے معنی میں ہے یا الا کے معنی میں ہے ، مطلب یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو عذاب دینا یا نہ دینا کوئی بات آپ کے اختیار میں نہیں یہاں تک کہ اللہ مسلمان ہونے کی وجہ سے یا ان پر رحم فرمائے گا اور تم کو اس پر خوشی ہوگی یا ان کو عذاب دے گا اور اس سے تم کو تسکین حاصل ہوگی ” لیقطع طرفا “ اور (آیت)” ولیس لک من الامر شیئ “۔ یہ دونوں جملوں کے درمیان کلمہ معترضہ ہے ۔
Top