Tafseer-e-Baghwi - Yaseen : 30
یٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
يٰحَسْرَةً : ہائے حسرت عَلَي الْعِبَادِ ڱ : بندوں پر مَا يَاْتِيْهِمْ : نہیں آیا ان کے پاس مِّنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ تھے بِهٖ : اس سے يَسْتَهْزِءُوْنَ : ہنسی اڑاتے
بندوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا مگر اس سے تمسخر کرتے ہیں
30، یاحسرۃ علی العباد ، انہوں نے اپنے اوپر افسوس کیا ۔ حسرت شدت ندامت کو کہاجاتا ہے ۔ اس میں دوقول ہیں ایک قول یہ ہے کہ چونکہ لوگ پیغمبروں پر ایمان نہیں لائے اس لیے قیامت کے دن اللہ فرمائے گا کہ آج بندوں کے لیے حسرت ندامت اور غم ہے۔ دوسرایہ کہ یہ ہلاک ہونے والوں کا کلام ہے۔ ابوالعالیہ فرماتے ہیں کہ جبانہوں نے عذاب کا معائنہ کرلیا تو کہنے لگے اے حسرۃ ! ہائے افسوس ! ان تین بندوں پر کہ ہم نے ان تینوں بھیجوں ہوؤں پر ایمان نہیں لائے۔ انہوں نے اس وقت ایمان کی تمنا کی جب ان کو ایمان نے نفع نہیں پہنچایا۔ زہری فرماتے ہیں حسرت والا شخص کسی کو پکارتا نہیں ، اگر پکارے تو یہ پکارنا مخاطبین کے لیے تنبیہ ہوتی ہے ۔ کہا گیا کہ عرب والے کہتے ہیں ، یاحسرتی، یاعجبا، بطور مبالغہ کے ہے اور ندابطور تنبیہ کے ہے ۔ ، فکانہ یقول ، جیسا کہ کہاجاتا ہے ہائے تعجب یہ وقت آگیا ، ہائے حسرت یہ اس کے برتن یہ ہے کہ یہ حسرت اور تعجب کا زمانہ ہے۔ پھر اس کا سبب بیان کردیا حسرت اور ندامت کا۔ ، مایا تیھم من رسول الاکانوابہ یستھزؤن،
Top