Tafseer-e-Baghwi - Yaseen : 38
وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِؕ
وَالشَّمْسُ : اور سورج تَجْرِيْ : چلتا رہتا ہے لِمُسْتَقَرٍّ : ٹھکانے (مقررہ راستہ لَّهَا ۭ : اپنے ذٰلِكَ : یہ تَقْدِيْرُ : نظام الْعَزِيْزِ : غالب الْعَلِيْمِ : جاننے والا (دانا)
اور سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتا رہتا ہے (یہ) خدائے غالب اور دانا کا (مقرر کیا ہوا) اندازہ ہے
38، والشمس تجری لمستقرلھا، اس کے ٹھکانے کی طرف ۔ بعض نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے۔ یعنی دنیا کی آخری مدت ختم ہونے پر اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتا ہے اور وہ وقت قیامت کا ہے اور بعض نے کہا کہ وہ چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ غروب ہونے کی جگہ پہنچ جاتا ہے ۔ پھر وہ لوٹتا ہے۔ یہ جگہ اس کا مستقر ہے کیوں کہ وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور بعض نے کہا مستقر سے مراد ہے گرمی کے موسم میں انہتائی بلندی پر پہنچ جانے کا اور سردی کے موسم میں آخری ہبوط پر آجانے کا مقام ہے اور یہ روایت اصح ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کا ٹھکانہ عرش کے نیچے ہے۔ حضرت ابوذرؓ کی روایت ہے کہ جس وقت سورج غروب ہواتو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، کیا تم جانتے ہو کہ یہ کہاں چلاجاتا ہے ، حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی کو بخوبی علم ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ جاکرعرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور قریب ہے کہ سورج سجدہ کرے گا اور اجازت طلب کرے گا، اس کو اجازت نہیں ملے گی، اس کو کہا جائے گا کہ واپس لوٹ جا، پھر وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اس لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ، والشمس تجری لمستقرلھاذلک تقدیر العزیز العلیم ، عمروبن دینا رابن عباس ؓ سے روایت ہے ان کے نزدیک ، والشمس تجری لمستقرلھا، ہے۔ ابن مسعود ؓ کے ہاں اس کا معنی ہے، لا قرار لھا ولا وقوف ، اس کے لیے نہ قرار ہے اور نہ ی رکنا ہے، ہمیشہ چلتا رہے گا۔ ، ذلک تقدیر العز یز العلیم ،
Top