Tafseer-e-Baghwi - At-Tahrim : 4
اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا١ۚ وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ
اِنْ تَتُوْبَآ : اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف فَقَدْ صَغَتْ : تو تحقیق کج ہوگئے ۔ جھک پڑے قُلُوْبُكُمَا : تم دونوں کے دل وَاِنْ تَظٰهَرَا : اور اگر تم ایک دوسرے کی مدد کرو گی عَلَيْهِ : آپ کے خلاف فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ : وہ مَوْلٰىهُ : اس کامولا ہے وَجِبْرِيْلُ : اور جبرائیل وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور صالح اہل ایمان وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد ظَهِيْرٌ : مددگار
اور (یاد کرو) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی تو (اس نے دوسری کو بتادی) جب اس نے اسکو افشا کیا اور خدا نے اس (حال) سے پیغمبر کو آگاہ کردیا تو پیغمبر نے (ان بی بی کو وہ بات) کچھ تو بتائی اور کچھ نہ بتائی تو جب وہ ان کو جتائی تو پوچھنے لگیں کہ آپ کو یہ کس نے بتایا ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے .
3 ۔” واذا اسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثا “ اور وہ اپنی لونڈی کو خود پر حرام کرنا ہے اور آپ ﷺ کا حفصہ ؓ کو یہ کہنا کہ اس کی کسی کو خبر نہ دینا۔ اور سعید بن جبیر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے اپنے بعد خلافت کے امر کو چھپایا۔ پس اس کو حفصہ ؓ نے بیان کردیا۔ کلبی (رح) فرماتے ہیں اس کی طرف یہ بات چھپائی کہ تیرا باپ اور عائشہ صدیقہ ؓ کا باپ میرے بعد میری امت کے خلیفہ ہوں گے اور میمون بن مہران نے کہا اس بات کو پوشیدہ رکھا کہ ابوبکر میرے بعد میرے خلیفہ ہوں گے۔ ” فلما نبات بہ “ اس کی حفصہ ؓ نے عائشہ صدیقہ ؓ کو خبر دی۔ ” واظھرہ اللہ علیہ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (علیہ السلام) کو اطلاع دی کہ حفصہ ؓ نے اس بات کی آگے خبر کردی ہے۔ ” عرف بعضہ “ عبدالرحمن سلمی اور کسائی رحمہما اللہ نے ” عرف “ راء کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ یعنی اس کے بعض فعل کو پہچان لیا جو اس نے آپ (علیہ السلام) کے راز کو کھولنے میں کیا۔ یعنی اس وجہ سے ناراض ہو اور اس کو اس کی جزاء دی۔ یہ قائل کے قول سے مشتق ہے ” لاعرفن لک مافعلت “ جب کوئی اس سے برا معاملہ کرے۔ یعنی میں تجھے اس کا بدلہ دوں گا اور آپ ﷺ نے یہ بدلہ دیا کہ ان کو طلاق دے دی۔ پس جب یہ بات عمر ؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا اگر آل خطاب میں کوئی خیر ہے تو رسول اللہ ﷺ تجھے طلاق نہ دیں گے۔ پس جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور آپ (علیہ السلام) کو حفصہ ؓ سیرجوع کرنے کا حکم دیا اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایک مہینہ جدائی اختیار کی اور ابراہیم ؓ کی والدہ ماریہ ؓ کی باری میں بیٹھے حتیٰ کہ تخییر کی آیت نازل ہوئی اور مقاتل ابن حیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حفصہ ؓ کو طلاق نہیں دی تھی۔ صرف طلاق کا ارادہ کیا تھا تو جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور کہا کہ آپ (علیہ السلام) ان کو طلاق نہ دیں کیونکہ وہ کثرت سے روزے رکھنے والی اور کثرت قیام والی ہیں اور یہ جنت میں آپ (علیہ السلام) کی بیویوں میں سے ہیں تو آپ (علیہ السلام) نے ان کو طلاق نہیں دی اور دیگر حضرات نے ” عرف “ تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ یعنی اس بات کے بعد حفصہ ؓ کو بتایا یعنی ان کو اس بعض قول کی خبر دی جو ان سے ہوا تھا۔ ” واعرض عن بعض “ یعنی وہ اس کو نہیں بتایا اور اس کی خبر بھی نہیں دی۔ حسن (رح) فرماتے ہیں کریم کبھی تمام کوتاہی نہیں بتاتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” عرف بعضہ واعرض عن بعض “ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے جب حفصہ ؓ کے چہرے پر ناگواری دیکھی تو ان کو راضی کرنے کے لئے چپکے سے دو باتیں بتائیں۔ (1) لونڈی کو اپنے اوپر حرام کرنا اور ان کو خوشخبری دینا کہ آپ (علیہ السلام) کے بعد خلافت ابوبکر ؓ اور ان کے والد عمر ؓ میں ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس پر مطلع کیا تو حفصہ ؓ کو بتایا اور اس تھوڑی بات کی خبر دی جو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو بتائی تھی اور وہ لونڈی کو حرام کرنا ہے اور بعض سے اعراض کیا یعنی خلافت کے ذکر سے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ ناپسند سمجھا کہ یہ بات لوگوں میں پھیل جائے۔ ” فلما نباھا بہ “ یعنی نبی کریم ﷺ نے حفصہ ؓ کو خبر دی اس کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) پر ظاہر کیا۔ ” قالت “ حفصہ ؓ نے کہا ” من انباک ھذا “ یعنی کس نے آپ (علیہ السلام) کو خبر دی ہے کہ میں نے راز افشاء کیا ہے۔ ” قال نبانی العلیم الخبیر “۔
Top