Tafseer-e-Baghwi - At-Tahrim : 5
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا
عَسٰى رَبُّهٗٓ : امید ہے آپ کا رب اِنْ طَلَّقَكُنَّ : اگر وہ طلاق دے تم کو اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ : کہ وہ بدل کردے اس کو اَزْوَاجًا : بیویاں خَيْرًا مِّنْكُنَّ : بہتر تم عورتوں سے مُسْلِمٰتٍ : جو مسلمان ہوں مُّؤْمِنٰتٍ : مومن ہوں قٰنِتٰتٍ : اطاعت گزار تٰٓئِبٰتٍ : توبہ گزار عٰبِدٰتٍ : عبادت گزار سٰٓئِحٰتٍ : روزہ دار ثَيِّبٰتٍ : شوہر دیدہ۔ شوہر والیاں وَّاَبْكَارًا : اور کنواری ہوں
اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تمہارے دل کج ہوگئے ہیں اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کرو گی تو خدا اور جبرئیل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوستدار) ہیں اور (انکے علاوہ اور) فرشتے بھی مددگار ہیں
4 ۔” ان تتوبا الی اللہ “ یعنی نبی کریم ﷺ پر ایذاء کا تعارف کرنے سے۔ اس سے عائشہ صدیقہ اور حفصہ ؓ کو خطاب کیا ہے۔ ” فقد صغت قلوبکما “ یعنی حق سے مائل ہوگئے اور تم توبہ کی سزاوار ٹھہریں۔ ابن زید (رح) فرماتے ہیں تمہارے دل مائل ہوئے کہ ان دونوں کا راز وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے ناپسند کیا آپ ﷺ کے لونڈی سے اجتناب کرنے سے۔ بخاری وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : مجھے حضرت عمر ؓ سے یہ بات دریافت کرنے کی بڑی خواہش تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی وہ دو بیویاں کون تھیں۔ جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے : ” ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما “ (مگر موقع نہیں ملتا تھا) ایک بار جب حضرت عمر ؓ کو گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ حج کو گیا اور (راستہ میں قضائے حاجت کی ضرورت ہوئی اور) آپ ایک طرف کو مڑ گئے۔ میں بھی لوٹا لیے (راستہ چھوڑ کر) آپ کے ساتھ ایک طرف کو مڑ گیا۔ آپ ضرورت پوری کرکے واپس آئے تو میں نے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور اس وقت کہا امیر المومنین ! رسول اللہ ﷺ کی وہ دو بیویاں کون سی تھیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما “۔ فقد صغت قلوبکما سے کون دو عورتیں مراد ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا : ” ابن عباس ! ؓ تیرے اوپر تعجب ہے وہ دونوں عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) تھیں۔ “ پھر حضرت عمر ؓ نے پوری سرگزشت بیان کی اور فرمایا ” میں اور بنی امیہ بن زید کے قبیلہ کا ایک انصاری جو عوالی مدینہ کا رہنے والا تھا، باہم طے کرچکے تھے کہ باری باری ہم دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہا کریں گے، ایک دن میں ایک دن وہ۔ میری باری کے دن جو وحی نازل ہو یا کوئی دوسرا اہم واقعہ ہو اس کی اطلاع میں اس انصاری کو دوں گا اور اس کی باری کے دن جو کچھ ہو وہ مجھ سے آکر بیان کردے۔ ہمارا قریش کا گروہ اپنی عورتوں پر غالب رہتا تھا لیکن جب ہم مدینہ میں آئے تو ہم نے ایسے لوگ پائے جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں۔ ہماری عورتیں بھی انصاری عورتوں کی خو اور خصلت سیکھنے لگیں۔ ایک روز میں اپنی عورت پر چلایا، اس نے بھی ویسا ہی (چلا کر) جواب دیا، مجھے اس کا جواب دینا غیر معمولی معلوم ہوا۔ اس نے کہا ” آپ کو میرا جواب دینا کیوں ناگوار گزرا ؟ رسول اللہ ﷺ کی بیویاں رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہیں بلکہ بعض عورتیں تو آج دن بھر شام تک حضور ( ﷺ ) کو چھوڑے رہی ہیں “ (یعنی حضور ﷺ سے کلام بھی نہیں کیا) ۔ میں یہ بات سن کر گھبرا گیا اور میں نے کہا : نامراد رہے گی جو ایسا کرے گی، اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور جاکر حفصہ ؓ کے پاس اترا اور پوچھا ” کیا تم میں سے کوئی رسول اللہ ﷺ سے اتنی ناراض ہوتی ہے کہ دن بھر شام تک حضور ﷺ کو چھوڑے رکھتی ہے ؟ “ حفصہ ؓ نے کہا ” ہاں ! “ میں نے کہا تو ناکام ونامراد ہوگی (اگر تونے ایسی حرکت کی) کیا تجھے ڈر نہیں لگتا کہ رسول اللہ ﷺ کی ناراضی سے اللہ ناراض ہوجائے گا پھر تو تباہ ہوجائے گی۔ (خبردار) ! رسول اللہ ﷺ سے زیادہ (مصارف) طلب نہ کرنا اور کسی معاملے میں حضور ﷺ کو جواب نہ دینا اور آپ ﷺ کو چھوڑے نہ رہنا (یعنی ترک کلام نہ کرنا) اور جو کچھ تجھے ضرورت ہو مجھ سے مانگ لینا اور تجھے اس بات پر رشک نہ ہونا چاہیے کہ تیری ہمسائی تجھ سے زیادہ چمکیلی اور رسول اللہ ﷺ کو تجھ سے زیادہ پیاری ہے، یعنی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اس زمانہ میں ہم باہم تذکرہ کرتے تھے کہ غسانیوں نے ہم سے لڑنے کے لئے اپنے گھوڑوں کی نعل بندی کرائی ہے۔ ایک روز انصاری (دوست) اپنی باری کے دن (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہا اور) عشاء کے وقت ہمارے پاس لوٹ کر آیا اور آتے ہی میرا دروازہ زور ، زور سے پیٹ ڈالا اور پوچھا : کیا عمر ؓ ہے ؟ میں گھبرا کر فوراً باہر نکلا۔ انصاری نے کہا : آج ایک عظیم حادثہ ہوگیا۔ میں نے کہا، کیا ہوا ؟ کیا غسان (شاہ شام) آگیا ؟ بولا اس سے بھی بڑا لمبا حادثہ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیبیوں کو طلاق دے دی۔ میں نے کہا حفصہ ؓ ناکام ونامراد ہوگئی، میرا تو پہلے ہی خیال تھا کہ عنقریب (شاید) ایسا ہوگا، اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور جاکر فجر کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی۔ نماز کے بعد حضور ﷺ اپنے بالا خانے پر تشریف لے گئے اور وہاں سب سے کنارہ کش ہوگئے اور میں حفصہ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے کہا : اب کیوں روتی ہے ؟ کیا میں نے تجھے پہلے ہی نہیں ڈرادیا تھا، کیا تم عورتوں کو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی ؟ بولی : مجھے نہیں معلوم کیا وجہ ہے، رسول اللہ ﷺ سب سے الگ بالا خانے پر گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔ میں حفصہ ؓ کے پاس سے نکل کر (مسجد میں) منبر کے پاس پہنچا۔ اس وقت منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے رو رہے تھے۔ میں بھی ان کے پاس تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ گیا لیکن اندرونی غم کی وجہ سے مجھ سے وہاں زیادہ رکانہ گیا، فوراً بالا خانے کی طرف آیا جہاں رسول اللہ ﷺ گوشہ گیر تھے۔ میں نے غلام سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے عمر کے لئے اجازت کی درخواست کرو۔ غلام اندر گیا، رسول اللہ ﷺ سے کچھ بات کی اور پھر واپس آکر غلام نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی تھی اور تمہارا تذکرہ کردیا لیکن حضور ﷺ خاموش رہے۔ مجبوراً میں واپس آکر پھر منبر کے پاس ان لوگوں کے قریب بیٹھ گیا جو وہاں موجود تھے لیکن زیادہ دیر رکانہ گیا، پھر جاکر اسی غلام سے کہا : میرے لئے داخلہ کی اجازت کی استدعا کرو۔ اس نے اندر جاکر حضور ﷺ سے کچھ کلام کیا اور کچھ دیر کے بعد واپس آگیا اور بولا : میں نے حضور ﷺ سے تمہارے لئے داخلہ کی درخواست کی تھی مگر حضور ﷺ خاموش رہے۔ میں (مایوس ہوکر) لوٹ آیا اور انہی لوگوں میں جاکر بیٹھ گیا جو منبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے لیکن کچھ ہی دیر کے بعد اندرونی احساس کے غلبہ کی وجہ سے اٹھا اور غلام سے جاکر کہا : عمر کے لئے اجازت کی درخواست کرو ۔ غلام اندر گیا اور کچھ دیر کے بعد لوٹ کر آیا اور کہا میں نے تمہارا ذکر کیا لیکن حضور ﷺ خاموش رہے۔ میں نے واپسی کے لئے پشت پھیری ہی تھی کہ اس غلام نے مجھے پکار کر کہا، رسول اللہ ﷺ نے تم کو داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ یہ بات سن کر میں اندر چلا گیا، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ ننگی چٹائی پر استراحت فرما ہیں جس کی وجہ سے پہلو پر چٹائی کے نشان پڑگئے اور سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ ہے جس میں کھجور کے درخت کے ریشے بھرے ہوئے ہیں۔ میں نے سلام کیا اور کھڑے کھڑے عرض کیا : یارسول اللہ ! کیا آپ ﷺ نے اپنی بیبیوں کو طلاق دے دی ؟ حضور ﷺ نے میری طرف نظر اٹھائی اور فرمایا : نہیں اللہ اکبر ! رسول اللہ ﷺ نے اپنی جھجک کو دور کرنے کے لئے میں نے کھڑے ہی کھڑے عرض کیا۔ دیکھئے حضور ﷺ ہمارا قریش کا جتھا پہلے اپنی عورتوں پر غالب تھا لیکن مدینہ آنے کے بعد ہم نے ایسے لوگ پائے جن کی عورتیں ان پر غالب ہیں۔ رسول اللہ ﷺ یہ بات سن کر مسکرادیئے۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! ملاحظہ فرمائیے میں حفصہ ؓ کے پاس گیا تھا اور میں نے اس سے کہہ دیا کہ تجھے اس بات پر رشک نہ ہونا چاہیے کہ تیری ہمسائی تجھ سے زیادہ چمکیلی ہے رسول اللہ ﷺ کی چہیتی ہے، حضور ﷺ یہ بات سن کر دوبارہ مسکرادیئے۔ حضور ﷺ کو مسکراتے دیکھ کر میں بیٹھ گیا اور نظر اٹھا کر گھر کے اندر کی چیزوں کو دیکھا، خدا کی قسم تین کچے چمڑوں کے علاوہ میں نے کوئی چیز قابل دید نہیں پائی۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ( ﷺ ) اللہ سے دعا کیجئے کہ آپ ﷺ کی امت کو فراخی حاصل ہوجائے۔ روم اور فارس کو اللہ نے فراخ حال کیا ہے اور ان کو دنیا عطا کی ہے باوجودیکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ حضور ﷺ اس وقت تکیہ لگائے ہوئے تھے میری بات سنتے ہی بیٹھ گئے اور فرمایا : ابن خطاب ! کیا تم اس خیال میں ہو، ان لوگوں کو تو اللہ نے ان کی عمدہ (دل پسند) چیزیں دنیا میں دے دی ہیں (آخرت میں ان کا حصہ نہیں) میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ( ﷺ ) میرے لئے دعائے مغفرت فرمائیے۔ بس یہی بات تھی کہ حضور ﷺ اپنی بیبیوں سے الگ ہوکر گوشہ نشین ہوگئے تھے کیونکہ حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے حضور ﷺ کا راز کہہ دیا تھا۔ اللہ نے اپنے رسول ﷺ پر عتاب کیا تھا، اس لئے حضور ﷺ اپنی بیبیوں سے سخت ناراض تھے اور عہد کیا تھا کہ میں ایک ماہ تک ان کے پاس نہیں جائوں گا۔ چناچہ جب انتیس راتیں گزر گئیں تو سب سے پہلے عائشہ صدیقہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا یارسول اللہ ! ( ﷺ ) آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ ایک مہینہ تک آپ ﷺ ہمارے (یعنی کسی بی بی کے) پاس تشریف نہیں لائیں گے لیکن آج تو انتیس کے بعد کی صبح ہے۔ میں برابر گن رہی ہوں، فرمایا : مہینہ انتیس کا (بھی ہوتا ہے) ہے۔ واقعی وہ مہینہ انتیس کا (ہوا) تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے اس کے بعد آیت تخییر نازل ہوئی۔ نزول آیت کے بعد سب سے پہلے حضور ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور (مجھے نکاح میں باقی رہنے یا آزاد ہوجانے کا اختیار دیا) میں نے حضور ﷺ (کے ساتھ رہنے) کو اختیار کیا۔ پھر دوسری بیبیوں کو بھی یہی اختیار دیا اور سب نے اسی بات کو اختیار کیا جو عائشہ صدیقہ ؓ نے اختیار کی تھی۔ (یعنی کیسا ہی فقروفاقہ ہو کسی بی بی نے حضور ﷺ سے جدا ہونے کو پسند نہیں کیا) بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کہا : میں تجھ سے ایک بات کہتا ہوں بغیر ماں، باپ کے مشورہ کے فوری عجلت میں اس کا جواب دینا تیرے لئے لازم نہیں ہے۔ حضور ﷺ جانتے تھے کہ میرے والدین رسول اللہ ﷺ سے جدا ہونے کا مجھے مشورہ نہیں دیں گے، اس کے بعد حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ نے ارشاد فرمایا ہے : ” یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن “ (دونوں آیات کے ختم تک حضور ﷺ نے تلاوت فرمائی) میں نے عرض کیا : اس معاملہ میں والدین سے کیا مشورہ کروں (اس کی کوئی ضرورت نہیں) میں اللہ کو اور اس کے رسول ( ﷺ ) کو اور دارآخرت (کی بھلائی) کو چاہتی ہوں۔ یہ حدیث بتارہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو ایک ماہ تک اپنی بیبیوں سے کنارہ کش رہے، اس کا سبب وہی افشاء راز تھا۔ حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کا راز کہہ دیا تھا۔ (وان تظاھر اعلیہ) یعنی اگر تم دونوں رسول اللہ ﷺ کے خلاف باہم تعاون کرلو گے جو رسول اللہ ﷺ کو ناگوار ہے۔ (فان اللہ ھو مولاہ) وہ اس کا ولی اور مددگار ہے۔ (وجبریل و صالح المومنین) اس سے مراد حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ ہیں۔ کلبی کا بیان ہے کہ صالح المومنین سے مراد مخلص مومن جو منافق نہیں ہیں۔ (والملائ کہ بعد ذلک ظھیر) یعنی اللہ کی جبرئیل کی اور مومنین صالحین کی مدد کے بعد ملائکہ بھی اپنی پوری کثرت کے ساتھ مددگار ہیں۔
Top