Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
(اے نبی ﷺ آپ کسی چیز کے بارے میں یہ ہرگز نہ کہا کریں کہ ” میں یہ کام کل کر دوں گا
لغات القرآن آیت نمبر 23 تا 24 لاتقولن تو ہرگز مت کہنا۔ لشائ کسی چیز کے لئے۔ فاعل کرنے والا۔ غداً کل۔ اذکر یاد کر۔ نسیت تو بھول گیا۔ عسی شاید۔ توقع۔ یھدین وہ مجھے راہ دکھائے گا۔ اقرب زیادہ قریب۔ رشد سمجھنا، رہنمائی۔ تشریح :- آیت نمبر 23 تا 24 اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے اپنے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زندگی کو زندگی کے ہر انداز اور معاملات زندگی کو ہر اس شخص کے لئے بہترین نمونہ عمل بنا دیا ہے جو اللہ کی رحمت کی امید، آخرت کی فکر اور خوب اللہ کا ذکر کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو منصب نبوت عطا فرمایا ہے وہ اس لئے ہے کہ آپ لوگوں تک اللہ کا پیغام پوری دیانت سے پہنچا دیں اور اللہ کے احکامات پر عمل کرانے کے بعد ایک ایسی سوسائٹی یا معاشرہ بنا دیں جو قیامت تک موجود اور آنے والی نسلوں کے لئے نشان منزل بن جائے اور ہر شخص کو اس کا خوگر بنا دیں کہ اس کائنات کا نظام اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اس کو چلاتا ہے۔ وہ اس کے چلانے میں کسی طرح کسی کا محتاج نہیں ہے۔ ہر شخص کو اسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئے کیونکہ اس کائنات میں کیا چیز بہتر ہے اور کیا چیز بری اور بدترین ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں کام میں کرسکتا ہوں تو بیشک اللہ نے جو اس کو طاقت و قوت اور توانائی بخشی ہے اس سے وہ اس کام کو کرسکتا ہے لیکن خود انسان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس کام کو کر رہا ہے اس میں خیر ہے یا نہیں ۔ اسی لئے اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ انسان جب بھی کسی کام کا ارادہ کرنا چاہئے تو اللہ پر بھروسہ کرلیا کرے یعنی اس طرح کہہ دیا کرے کہ انشاء اللہ میں یہ کام کل کو کر دوں گا۔ اگر اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کے باوجود وہ کام نہ ہو یا اس میں تاخیر ہوجائے تو یقیناً اس میں کوئی مصلحت ضرور ہوگی۔ اسی بات کو اس آیت میں نبی کریم ﷺ اور آپ کی وساطت سے آپ کی امت کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ جب بھی آئندہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ ہو تو یہ ضرور کہہ لیا جائے انشاء اللہ یہ کام میں کل کر دوں گا۔ یعنی اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ پر بھروسہ کرلیا جائے۔ سورة کہف کے نزول کے وقت جب کفار مکہ نے اصحاب کہف کے متعلق پوچھا تو آپ نے یہ سوچ کر کہ کل جبرئیل آئیں گے تو میں ان سے پوچھ کر بتا دوں گا۔ آپ نے یہ کہہ دیا کہ ” میں یہ بات تمہیں کل بتا دوں گا “ چونکہ آپ ﷺ کی ذات پاک امت کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے آپ کی امت کو سکھانے کے لئے چند روز تک وحی نازل نہیں ہوئی۔ جبرئیل امین نہیں آئے۔ کفار کو مذاق اڑانے اور جملے کسنے کا موقع مل گیا جس سے آپ کو خاصی پریشانی ہوگئی۔ چند روز کے بعد یہ آیت نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا کہ آپ ﷺ کی زندگی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے۔ لہٰذا آئندہ جب بھی مستقبل میں کئے جانے والا کام یا کوئی بات فرمائیں تو انشاء اللہ کہہ لیا کریں تاکہ اللہ پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے کام درست ہوجائیں اور ان کی رکاوٹیں دور ہوجائیں اور ہر شخص یہ بات جان لے کہ اس کائنات میں ہر کام اللہ کی قدرت، اس کے حکم اور کسی مصلحت سے ہوتا ہے۔ اس کے حکم کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔
Top