Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 25
وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا
وَلَبِثُوْا : اور وہ رہے فِيْ : میں كَهْفِهِمْ : اپنا غار ثَلٰثَ مِائَةٍ : تین سو سِنِيْنَ : سال وَ : اور ازْدَادُوْا : اور ان کے اوپر تِسْعًا : نو
اور وہ (اصحاب کہف) اپنے غار میں تین سو سال اور ان کے اوپر چند سال (309) تک (تک سوتے) رہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 25 تا 26 لبثوا وہ ٹھہر رہے، رکے رہے۔ ثلث مائۃ تین سو، (سال) ۔ ازدادوا انہوں نے بڑھایا۔ تسعاً (نو 9) ۔ اعلم زیادہ بہتر جانتا ہے۔ ابصربہ اس کے ساتھ زیادہ دیکھنے کی طاقت۔ اسمع بہ اس کے سننے کی زیادہ طاقت۔ احد کوئی ایک، کسی کو۔ تشریح : آیت نمبر 25 تا 26 اللہ کو اس بات کا پوری طرح اور بہتر علم ہے کہ اللہ کے وہ نیک بندے جنہیں اصحاب کہف کہا جاتا ہے وہ تین سو نوسال تک اس غار میں سوتے رہے ہیں۔ وہ جتنی دیر بھی سوئے انہیں اٹھنے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دن بھر یا آدھے دن تک سوتے رہے ہیں۔ انہیں اس کا اندازہ ہی نہ تھا کہ ان پر صدیاں بیت گئیں۔ جس شہر میں وہ رہتے تھے اس شہر کا انداز، رہن سہن، سلطنت کا انداز، سکہ (کرنسی) سب بدل چکے تھے۔ اصحاب کہف کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کتنی طویل مدت تک سوتے رہے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ تم چپکے سے پوری احتیاط کے ساتھ شہر جا کر ہم سب کے لئے کھانا لے آؤ۔ اس طرح جانا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو۔ چناچہ اصحاب کہف میں سے ایک شخص جس کا نام مفسرین نے یملیخا بتایا ہے وہ شہر گیا اور اس طرح (جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے) لوگوں پر ان کا حال کھل گیا۔ اس پوری واقعہ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سے سامنے آتی ہے کہ اس کائنات میں ساری قدرتیں صرف اللہ کی ہیں غیب کا سارا علم صرف اللہ کو حاصل ہے۔ وہ اس میں سے جس کو چاہے جتنا چاہے غیب کا علم فرما دیتا ہے لیکن قدرتیں اللہ کی ہیں غیب کا سارا علم صرف اللہ کو حاصل ہے۔ وہ اس میں سے جس کو چاہے جتنا چاہے غیب کا علم فرما دیتا ہے لیکن غیب کا علم جاننے سے کوئی شخص عالم الغیب نہیں بن جاتا صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے۔ چناچہ اس واقعہ میں صاف ظاہر ہے کہ اصحاب کہف کو کچھ معلوم نہ تھا کہ صدیوں تک انپر کیا گذری ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف جو اللہ کے پیغمبر ہیں ان کا یہ حال ہے کہ جب حضرت یوسف کے حاسد بھائیوں نے ان کنوئیں میں پھینک دیا اور اس سے مطمئن ہوگئے کہ حضرت یوسف تڑپ تڑپ کر اس کنوئیں میں جان دے چکے ہوں گے تب انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب کو یہ جھوٹی خبر پہنچائی کہ حضرت یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔ حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کی بات پر صبر فرما لیا۔ اور ان کو یہ معلوم تک نہ ہوسکا کہ ان کا لخت جگر صرف کچھ فاصلے پر ایک کنوئیں میں پھینک دیا گیا ہے لیکن جب حضرت یوسف مصر کے بادشاہ بن گئیا ور انہوں نے اپنے والد کے لئے اپنا قمیص بھیجاتا کہ وہ قمیص ان کے چہرے پر ڈال دیا جائے اور ان کی بینائی دوبارہ لوٹ آئے ادھر وہ قمیص مصر سے فلسطین کی طرف روانہ ہوا ہے (وہ فلسطین جو مصر سے ایک طویل فاصلے پر ہے) تو حضرت یعقوب نے فرمایا کہ مجھے یوسف کے پیراہن کی خوشبو آرہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہے۔ وہی ہر غیب کا پوری طرح علم رکھتا ہے اور علم الغیب جتنا کسی کو دینا چاہے دیدیتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس کائنات میں ساری قوتیں صرف اللہ کے لئے ہیں اس کو ہر چیز کا علم ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اس کائنات کے نظام کو چلاتا ہے۔ وہ اس کائنات کے چلانے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ یہ انسان کی سعادت ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لا کر عمل صالح اختیار کرتا ہے۔
Top