Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
(اے نبی ﷺ آپ کی طرف آپ کے رب کی کتاب میں سے جو کچھ وحی کی گئی ہے اس کو سنا دیجیے۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے اور آپ سے بھاگ کر پناہ کی جگہ ہرگز نہ پا سکیں گے
لغات القرآن آیت نمبر 27 تا 29 اتل پڑھئے، سنائیے۔ ملتحد پناہ کی جگہ۔ لاتعد نہ پھریں۔ ترید تو چاہتا ہے۔ لاتطع کہنا مت مان۔ ھواہ اس کی خواہش۔ فرطاً حد سے آگے بڑھنے والے۔ احاط گھیر لیا۔ سرادق پردہ کی دیوار، قنات۔ یستغیثوا وہ مدد چاہیں گے۔ مھل وہ چیز جو طبیعت پر ناگوار ہو۔ یشوی بھون ڈالتی ہے۔ الشراب پینے کی چیز۔ مرتفق آرام کرنے کی جگہ۔ تشریح :- آیت نمبر 27 تا 29 نبی کریم ﷺ کی شدید دلی خواہش تھی کہ اگر عرب کے سردار اور با اثر لوگ ایمان لے آئیں تو سارا عرب اسلام کی دولت سے مالا مال ہوجائے گا اور کفر و شرک کی کمر ٹوٹ کر رہ جائے گی۔ آپ اللہ کا دین پھیلانے کی جدوجہد میں رات دن کوششیں فرماتے رہتے تھے۔ ایک طویل عرصے کی جدوجہد کے نتیجے میں اکابر صحابہ کے علاوہ اکثر ان چند لوگوں نے اسلام قبول کیا جو معاشرہ کے انتہائی غریب، بےکس اور غلام تھے۔ جب آپ کفار مکہ کو اسلام کی دعوت دیتے تو ان کا یہ عذر ہوتا تھا کہ اے محمد ﷺ ! ہم آپ کے پاس آنا تو چاہتے ہیں مگر آپ کے پاس ایسے غریب نادار اور غلام بیٹھے رہتے ہیں جن کے پاس بیٹھنا ہماری توہین ہے۔ پہلے آپ اپنی مجلس سے ایسے لوگوں کو نکالئے تب ہم آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے ان آیات کو نازل فرمایا جس میں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کیجیے جس میں انسانی زندگی کی سچائیاں ہیں جو کبھی نہ تبدیل ہونے والی ہیں اور انسان کے لئے آخری پناہ گاہ اللہ ہی کی ذات ہے۔ فرمایا کہ آپ ایسے لوگوں کا ساتھ نہ چھوڑیئے جو اللہ پر ایمان کے سچے جذبے کے ساتھ آپ پر ایمان لائے ہیں جیسے حضرت عمار، حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت ابن مسعود وغیرہ جو صبح و شام اپنے پروردگار کی عبادت و بندگی اور اس کی رضا و خوشنودی کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ ان سے کبھی منہ نہ پھیریئے اور جو لوگ زندگی کی سچائیوں سے منہم وڑ کر چلتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوں ان کی رفاقت اور قرب اختیار نہ کیجیے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کے ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے ایسے لوگ اپنی خواہشات نفس کے غلام بنے ہوئے ہیں اور وہ کسی حد پر جا کر رکنے والے نہیں ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ فرما دیجیے کہ یہ سچائی میرے رب کی طرف سے ہے جس کا دل چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے وہ کفر کا راستہ اختیار کرلے۔ لیکن ایسے لوگ اس بات کو ضرور اپنے ذہن میں رکھ لیں کہ جس نے بھی کفر و شرک کا راستہ اختیار کیا اس کے لئے ایسی جہنم تیار ہے جس کی لپٹیں ان کو گھیر لیں گی اور جب وہ اس آگ میں اپنی پیاس بجھانے کے لئے پانی مانگیں گے تو ان کو تیل کی تلچھٹ یا لہو پیپ دیا جائے گا جو ان کے منہ کو جلا کر دے گا اور اس وقت ان کو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ جہنم کا کھانا اور ٹھکانا بدترین چیز ہے۔
Top