Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
ان سے آدمیوں کا حال بیان کیجیے۔ ہم نے ان میں سے ایک کے لئے انگور کے دو باغ رکھے تھے ان کے چاروں طرف کھجوروں کی باڑھ اور ان کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی۔
لغات القرآن آیت نمبر 32 تا 34 اضرب بیان کر، مار۔ رجلین (رجل) مردوں، دو آدمی۔ اعناب (عنب) انگور۔ حففنا ہم نے گھیر لیا۔ محفوظ کرلیا۔ نخل کھجور۔ زرع کھیتی۔ کلتا دونوں۔ اکل پھل۔ لم تظلم کم نہیں کیا۔ فجرنا ہم نے بہا دیا۔ یح اور بات چیت کرتا ہے۔ اعز میں زیادہ عزت والا ہوں۔ نفر لوگ، جماعت۔ تبید اجڑ جائے گا۔ الساعۃ قیامت، گھڑی۔ رددت میں لوٹایا گیا۔ منقلب (بہترین) جگہ لوٹنے کی۔ تشریح : آیت نمبر 32 تا 34 کفار مکہ کے اس مطالبہ کا ذکر گزشتہ آیات میں کیا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ اے نبی ﷺ ہم آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں مگر جب ہم یہ دیھکتے ہیں کہی آپ کے پاس ہمارے معاشرہ کے وہ غریب اور بدحال لوگ بیٹھے ہیں جن کے پاس بیٹھنا ہماری توہین ہے تو ہم آپ کے پاس آنے سے رک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے مغرور اور متکبر لوگوں کو سمجھانے کے لئے بطور مثال ایک واقعہ بیان کیا ہے وہ دو آدمی تھے ان میں سے ایک تو اللہ کی بےانتہا نعمتوں کے باوجود نا شکرا پن اور تکبر کا اظہار کر کے اپنی بڑائی بیان کرتا تھا دوسرا شخص اللہ کا فرماں بردار اور عاجزی و انکساری کا پیکر تھا۔ یہ دونوں ہو سکتا ہے بنی اسرائیل کے دو آدمی ہوں یا اس واقعہ کو ایک مثال کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہو۔ بہرحال ان آیتوں میں سردار ان مکہ اور قیامت تک آنے والے ہر متکبر اور مغرور شخص کو بتایا گیا ہے کہ اللہ کسی کا غرور اور تکبر قطعاً پسند نہیں ہے اسے عاجزی، انکساریا ور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ کرنے والے لوگ بےانتہا پسند ہیں۔ فرمایا کہ ان دونوں میں سے ایک شخص وہ تھا جسے پھولوں سے لدے ہوئے دو باغ دیئے گئے تھے جن میں انگور اور کھجوروں کی باڑھ تھی۔ سرسبز و شاداب کھیتیاں، پھل دار درخت اور بہتی ندی تھی جس سے ہر طرح کا نفع حاصل ہوتا تھا۔ مال و دولت کی ریل پیل، عزت و سربلندی، رشتہ داروں اور دوستوں کے ہجوم نے اس کو اتنا مغرور کردیا تھا کہ ایک دن اپنے کسی غریب دوست یا رشتہ دار کو پھلوں اور پھولوں سے لدے پھندے باغات میں لے جا کر کہنے لگا کہ یہ میرے باغات ہیں، لہلاتی کھیتیاں، سرسبزی و شادابی ، دنیا کا بےانتہا سامان، رشتہ داروں اور لوگوں کی بھیڑ میری عزت و سربلندی اتنی زیادہ ہے کہ اب مجھے نہ تو کوئی برباد کرسکتا ہے اور یہ آخرت ، قیامت سب کہنے کی باتیں ہیں پتہ نہیں قیامت آئے گی یا نہیں۔ میں تو اللہ کا محبوب بندہ ہوں کیونکہ اگر وہ اللہ مجھ سے ناراض ہوتا تو مجھے یہ سب کچھ کیوں دیتا۔ آخرت میں بھی میں راحت و آرام سے رہوں گا کیونکہ جب میں اللہ کا محبوب بندہ ہوں تو وہ مجھے وہاں آخرت کی نعمتوں سے کیوں محروم رکھے گا۔ اس کے یہ سب کچھ کہنے کا مقصد اس غریب آدمی کا مذاق اڑانا تھا جو اللہ اور آخرت پر ایمان و یقین رکھنے والا اور تقویٰ و پرہیز گاری کی زندگی گذارنے والا شخص تھا۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ تمہیں تمہاری نیکی اور پرہیز گاری نے کیا دیا ؟ سوائے فقر و فاقہ اور غربت و افلاس کے تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس واقعہ کی تفصیل تو اس سے اگلی آیات میں آرہی ہے۔ ٹھیک اسی طرح کفار مکہ ان مومنوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے جو ایمان و عمل صالح کی وجہ سے فقر و فاقہ کی زندگی گذار رہے تھے۔ حالانکہ اللہ نے انجام کے اعتبار سے صحابہ کرام کو دین و دنیا کی تمام بھلائیاں عطا فرمائی تھیں۔ مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آتی تھی اس واقعہ کی باقی تفصیل اگلی آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔
Top