Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 37
قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًاؕ
قَالَ : کہا لَهٗ : اس سے صَاحِبُهٗ : اس کا ساتھی وَهُوَ : اور وہ يُحَاوِرُهٗٓ : اس سے باتیں کر رہا تھا اَكَفَرْتَ : کیا تو کفر کرتا ہے بِالَّذِيْ : اس کے ساتھ جس نے خَلَقَكَ : تجھے پیدا کیا مِنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ : پھر مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے ثُمَّ : پھر سَوّٰىكَ : تجھ پورا بنایا رَجُلًا : مرد
دوسرے ساتھی نے اس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ کیا تو اس ذات کے ساتھ کفر (ناشکری) کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے بنایا پھر نطفہ سے پیدا کیا۔ پھر تجھے صحیح سالم آدمی بنا دیا۔
لغات القرآن آیت نمبر 37 تا 44 یح اور وہ بات کرتا ہے۔ تراب مٹی۔ سوی برابر کیا، مکمل کیا۔ ان ترن اگر تو مجھے دیکھتا ہے۔ ان یوتین یہ کہ مجھے دیدے۔ یرسل وہ بھیجتا ہے۔ حسبان آفت، مصیبت۔ صعید چٹیل میدان، نرم مٹی۔ زلق چکنی مٹی۔ غور گہرائی میں اتر جانا۔ احیط گھیر لیا گیا۔ یقلب وہ الٹتا پلٹتا ہے۔ کفیہ (کفین) اپنی دو ہتھیلیاں۔ انفقف اس نے خرچ کیا۔ خاویۃ او ندھی پڑی رہنے والی۔ عروش (عرش) بلندی، چھتیں فئۃ جماعت۔ گروہ ھنالک اسی جگہ۔ الولایۃ اختیار۔ عقب انجام، اجرت دینا۔ تشریح : آیت نمبر 37 تا 44 دنیا اور اس کی دولت کی خاصیت یہ ہے کہ اگر ایک شخص ایمان اور عمل صالح سے دور ہو تو وہ بےجا فخر و غرور اور ناشکری میں مبتلا ہو کر قارون بن جاتا ہے وہ اپنے علاوہ ہر شخص کو کم تر اور بےعقل سمجھنے لگتا ہے۔ اسے اس بات پر انتہائی فخر ہوتا ہے کہ اس کو جو کچھ ملا ہے وہ صرف اس کے علم تجربے اور محنت کا ثمر ہے۔ حالانکہ علم، تجربے اور محنت ہی کو سب کچھ مان لیا جائے تو ایک مال دار شخص کے مقابلے میں انتہائی قابل، عالم، تجربہ کار اور محنتی شخص زندگی بھر مفلسی اور غربت میں گذارنا نظر آتا ہے اور ایک وہ شخص جو صورت، شکل، علم، تجربے میں بہت کم ہے عیش و عشرت کے سامان اور مال و دولت کے ڈھیر رکھتا ہے وہ اسی میں مگن رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کا ایک نظام ہے جس کے تحت ہر شخص کو کچھ نہ کچھ عطا کیا جاتا ہے ۔ کسی کو کم کسی کو زیادہ۔ جس کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا رہے۔ اس پر فخر و غرور اور تکبر کا انداز اختیار نہ کرے۔ اللہ کا نظام یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرتا ہے تو اللہ اس سے سب کچھ چھین کر اس کو بےبس اور مجبور بنا دیتا ہے۔ چناچہ ایسے ہی دو آدمیوں کے واقعہ کو بطور مثال ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ایک شخص مال دار اور دوسرا غریب و نادار تھا۔ مال دار رئیس آدمی کے انگوروں اور کھجوروں اور ہر طرح کے ثمرات سے بھرپور دو باغ تھے۔ ہر طرف سرسبزی و شادابی، خوش حالی، رشتہ داروں اور دوستوں کی بھیڑ اس کے گرد جمع رہتی تھی۔ ایک دن وہ مال دار شخص اپنے غریب اور مفلس شخص کو اپنے باغ میں لے گیا اور کہنے لگا کہ میرے پاس دھن دولت کی کمی نہیں ہے۔ میں معاشرہ کا قابل ترین اور با عزت شخص ہوں ایک آدمی جن چیزوں کی تمنا کرسکتا ہے وہ سب کچھ مجھے حاصل ہیں۔ اب یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا۔ کہنے لگا کہ یہ قیامت، آخرت وغیرہ سب کہنے کی باتیں ہیں مجھے تو یقین نہیں ہے کہ قیامت آئے گی بہرحال اگر قیامت برپا ہوئی اور حساب کتاب ہوا تو جس طرح میں دنیا میں عیش و آرام کے ساتھزندگی گذار رہا ہوں آخرت میں بھی اسی طرح میں باعزت اور عیش و آرام کی زندگی گذار دوں گا۔ اس نے اپنے غریب بھائی سے کہا کہ مجھے تو اپنے علم اور تجربے سے سب کچھ مل گیا تو بم بتاؤ کہ تمہیں تمہاری نیکیوں، تقویٰ اور پرہیز گاری نے کیا دیا۔ تم تو یہاں بھی نقصان اور خسارے میں ہو۔ آخرت میں کیا ہوگا۔ اس کا اندازہ نہیں لگیا ا جاسکتا ہے۔ وہاں بھی تم اس حال میں رہوگے اور تمہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ جب وہ شخص اپنے غرور وتکبر کی باتیں کرچکا تو اس غریب و مفلس آدمی نے کہا کتنے افسوس کی بات ہے کہ تو ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے فخر و غرور کر رہا ہے۔ کبھی تو نے اس بات پر غور کرنے کی زحمت کی ہے کہ اللہ نے تجھے معمولی مٹی اور ناپاک خون کے ایک قطرے (نطفہ) سے پیدا کیا ہے اور تجھے صحیح سالم آدمی بنایا دیا ہے رہی میری بات تو میں عرض کروں گا کہ مجھے یقین کامل ہے کہ میرا رب صرف اللہ ہی ہے جو اپنی ذات میں یک و تنہا ہے۔ میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ مفلس آدمی نے مال دار سے کہا کہ اگر تو بےجا فخر و غرور کے بجائے ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ کہتا ” ماشاء اللہ ولاقوۃ الا باللہ “ یعنی جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور (اس کائنات میں) ساری طاقت و قوت اللہ ہی کی ہے۔ اگر تو شکر کا اندازاختیار کرتا تو شاید تجھے اس سے بھی دوگنا عطا کردیا جاتا۔ اللہ کی یہ قدرت و طاقت ہے کہ وہ آسمان سے کوئی آفت بھیج دے اور پھر تیرے یہ ہرے بھرے درخت سب کے سب تابہ ہو کر ایک چٹیل میدان بن جائیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس پانی سے تیرے باغوں کی یہ سرسبزی و شادابی ہے وہ پانی زمین کی گہرائیوں میں اتر جائے اور پھر ہزار کوشش کے باوجود اس پانی کو دوبارہ زین کے اوپر نہ لایا جاسکے۔ کیونکہ جب اللہ کا فیصلہ آجائے گا تو پھر کس میں یہ طاقتا ور قوت ہے کہ وہ اس کو اس کے عذاب سے بچا سکے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ایک دن اس کے باغوں پر آسمانی آفت آئی اور اس کے درختوں کے پھل اور سرسبزی و شادابی ختم ہو کر رہ گئی۔ جب سب کچھ ختم ہوگیا تو وہ ہاتھ ملتا رہ گیا۔ اس کا سارا باغ اس کی چھتریوں اور دیواروں پر ڈھیر ہوچکا تھا۔ تب اس کو عقل آئی اور اس نے کہا کہ کاش میں فخر و غرور اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ اس کی مکمل تباہی کے بعد وہی دوست احباب اور رشتہ دار جو اس کی خوشامد میں لگے رہتے تھے ایک ایک کر کے اس سے غائب ہونا شروع ہوگئے۔ وہ سب کے سب مل کر بھی اس کے کام نہ آسکے اور پھر اس کی جدوجہد اور کوشش بھی اس کے کام نہ آسکی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کائنات میں ساری طاقت و قوت صرف اللہ ہی کی ہے جو سچا پروردگار ہے اسی کا سارا اختیار ہے ۔ جو اس کی طاقت و قوت کے سامنے جھکتا ہے وہی انعام و اکرام کا مستحق ہوتا ہے اور اس کا انجام بھی بہتر انجام ہوتا ہے۔ اس واقعہ سے چند باتیں سامنے آتی ہیں۔ 1- اللہ تعالیٰ کو انسان کا فخر و غرور اور تکبرق طعاً ناپسند ہے۔ اگر اس کو کوئی چیز پسند ہے تو وہ انسان کی عاجزی و انکساری اور شکر گزاری کا جذبہ ہے۔ جو لوگ عاجزی و انکساری کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اللہ ان لوگوں کو اپنے انعام و اکرام سے نوازتا ہے اور ان کا انجام بھی بہترین ہوتا ہے۔ 2- اس کے برخلاف جو لوگ بےجا فخر و غرور کرتے ہیں اور دنیا کے مال و دولت کو سب کچھ سمجھ کر آخرت تک کا انکار کر بیٹھتے ہیں وہ وقتی طور پر تو بہت ترقی کرتے نظر آتے ہیں لیکن بہت جلد اپنے غرور کے سمندر میں غرق ہوجاتے ہیں جہاں نہ تو خود اپنی مدد کرسکتے ہیں اور نہ کوئی دوسرا ان کو بچانے آسکتا ہے۔ 3- ان آیات اور مثال میں کفار مکہ کو بھی آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ غریب اور مفلس مسلمانوں کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنی دولت پر فخر و غرور نہ کریں کیونکہ وہ فکار برے انجام سے بہت قریب ہیں اور صحابہ رسول ﷺ بہت جلد کامیاب اور بامراد ہونے والے ہیں ۔ چناچہ تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کرام دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت میں ان کا کس قدر بلند مقام ہوگا۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
Top