Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 54
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا : اور البتہ ہم نے پھیر پھیر کر بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ : سے كُلِّ مَثَلٍ : ہر (طرح) کی مثالیں وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان اَكْثَرَ شَيْءٍ : ہر شے سے زیادہ جَدَلًا : جگھڑنے والا
بیشک ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 54 تا 56 صرفنا ہم نے طرح طرح سے بیان کیا۔ جدل خوامخواہ کا جھگڑا۔ منع روکا۔ یستغفروا وہ معافی چاہتے ہیں۔ سنۃ طریقفہ، رسم۔ قبلاً سامنے۔ نرسل ہم بھیجتے ہیں۔ یدحضوا وہ ٹالتے ہیں۔ ھزوا مذاق۔ تشریح :- آیت نمبر 54 تا 56 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حق و صداقت، نیکی اور سچائی کی مثالوں کو بار بار بیان کیا ہے تاکہ ہر شخص سچائی کے راستے سے پوری طرح واقف ہو سکے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے حسن عمل اور طرز زندگی یعنی سنت کے ذریعہ ہر اس بات کی پوری طرح وضاحت فرما دی ہے جس سے ایک انسان کو صراط مستقیم پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں کو اللہ نے ایمان اور عمل صالح کی توفیق اور سعادت عطا فرمائی ہے انہوں نے نہ صرف اس پر ایمان لا کر بہترین عمل کیا بلکہ اس سچائی کو ساری دنیا تک پہنچانے میں اپنا سب کچھ قربان کر کے ایک ایسا انقلاب برپا کردیا جس سے ساری انسانیت کے اندھیرے دور ہوگئے۔ انہیں کفر و شرک اور نا فرمانیوں سے نجات مل گئی اور نور ہدایت کی روشنی میں انہوں نے دنیا اور آخرت کی تمام ابدی کامیابیاں حاصل کرلیں۔ اس کے برخلاف جن لوگوں نے ضد اور ہٹ دھرمی کا طرز عمل اختیار کیا اور اپنے کفر و شرک پر جمے رہے وہ زندگی کے اندھیروں میں گم ہو کر رہ گئے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو بتایا ہے۔ ارشاد ہے کہ ہم نے اکثر مثالوں کو بار بار اس لئے بیان کیا ہے تاکہ ہر شخص ان کو اچھی طرح سمجھ کر ان پر عمل کرسکے اور اپنی نجات کا سامان کرسکے۔ لیکن اکثر لوگ وہ ہیں جو پیغام ہدایت آنے کے باوجود اپنی ضد، ہٹ دھرمی، کج بحثی اور گناہوں کی زندگی پر اڑے ہوئے ہیں اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اس پیغام حق اور ہدایت آجانے کے باوجود لوگوں محض ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے نافرمانیوں سے توبہ نہیں کرتے تو پھر ان لوگوں پر اللہ کا عذاب آ کر رہتا ہے جس سے بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ گھروں اور شہروں کی بربادی ، تہذیب و تمدن کی تباہی، زلزلے ، طوفان، وبائیں، ہوا کے سخت جھکڑ، باہمی اختلافات اور جھگڑے، طرح طرح کی تباہ کن مصیبتیں یہ سب اللہ کے عذاب کی مختلف شکلیں ہیں جو گزشتہ قوموں پر اتٓی رہی ہیں۔ فرمایا کہ ہم اپنے پیغمبروں کو بھیجتے ہیں تاکہ وہ اللہ کے کلام کے ذریعہ اور اپنے طرز عمل سے اس بات کی وضاحت کردیں کہ اگر انہوں نے ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا تو ان کے لئے دنیا اور آخرت کی ابدی راحتیں ہیں لیکن اگر انہوں نے کفر و شرک اور اللہ کی نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا تو ان کا انجام گزشتہ قوموں سے مختلف نہ ہوگا ۔ کفار مکہ کو خاص طور پر اور قیامت تک آنے والے ہر شخص سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ نے اپنے نبی اور رسول بھیجے لیکن اب اللہ نے اپنے اس آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو بھیج دیا ہے جن کے دامن محبت میں سب کچھ ہے۔ اگر ان کی اطاعت و فرماں برداری کی گئی تو ان کو دنیا و آخرت کی ہر کامیابی نصیب ہوگی۔ لیکن اگر ان کو اور اللہ کی آیات کو مذاق میں اڑانے کی کوشش کی گئی تو پھر ان کی زندگیاں خود ایک مذاق بن کر رہ جائیں گی اور اپنے برے انجام سے نہ بچ سکیں گے۔
Top