Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
(اے نبی ﷺ پھر کہیں آپ ان کے پیچھے اس غم میں اپنی جان گھلا نہ ڈالیں کہ وہ ایمان کیوں نہیں لائے۔
لغات القرآن آیت نمبر 6 تا 8 لعل شاید، توقع ہے۔ باخع ہلاک کنے والا۔ اثار پیچھے چھوڑ جانے والی نشانی۔ الحدیث بات چیت۔ اسف افسوس، کسی چیز کے نہ ہونے کا غم۔ زینۃ خوبصورتی، رونق۔ صعید صاف میدان، ریت، مٹی۔ جرز سرسبز زمین جو چٹیل میدان بن جائے۔ تشریح :- آیت نمبر 6 تا 8 اعلان نبوت کے بعد نبی کریم ﷺ دن رات کفار و مشرکین کے سامنے دین اسلام کی سچائیوں اور آخرت کی ابدی زندگی کی راحتوں اور نہ ماننے والوں کے لئے شدید عذاب کی تبلیغ فرماتے تو وہ لوگ نبی کریم ﷺ اور دین اسلام کی صداقت پر ایمان لانے والوں کی طرح طرح سے اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ کفر و شرک میں زندگی گذارنے والے ایمان اور عمل صالح کو اختیار کر کے اپنی آخرت کو سنوار لیں لیکن دنیا کی ظاہری چمک دمک اور زیب وزینت کو سب کچھ سمجھنے والے آپ کی اطاعت قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان آیات میں نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئی فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے بنی کام کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو سچی راہ دکھا دے اور اس پر چل کر اپنی زندگی کو دوسروں کے لئے ایک مثال بنا دے۔ اس کے بعد خود انسان کی اپنی عقل و سمجھ اور سعادت ہے کہ وہ حق و صداقت کا راستہ اختیار کر کے اپنی دنیا اور آخرت سنوارتا ہے یا بےسمجھی اور بد نصیبی سے اپنی دنیا و آخرت کو برباد کرتا ہے۔ وہ لوگ جو دنیا کی ظاہری زیب وزینت اور خوبصورتی کو دیکھ کر اس کے دیوانے ہو رہے ہیں ان میں سے ایک چیز بھی باقی رہنے والی نہیں ہے۔ یہ پہاڑ، درخت، سرسبزی و شادابی اسی وقت تک ہے جب تک قیامت برپا نہیں ہوتی لیکن جب قیامت آجائے گی تو اس زمین پر سے ہر چیز کونا کردیا جائے گا اور یہ دنیا ایک صاف چٹیل میدان کی طرح بن کر رہ جائیگی۔ انسان صرف اپنے اچھے یا برے اعمال کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہوگا ۔ پھر فیصلہ کیا جائے گا کہ کون خوش نصیب ہے اور کون بد نصیب ہے۔ اس کے بعد اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اصحاب کہف بھی اگر دنیا کی زیب وزینت اور راحت و آرام میں لگے رہتے تو ان کو یہ عزت وسعادت نصیب نہ ہوتی۔ غور کرنے کی بات ہے کہ وہ لوگ جو ان چند نوجوانوں کو مٹانا چاہتے تھے خود اس طرح سے مٹ گئے کہ ان کا وجود بھی باقی نہیں ہے یا وہ لوگ جو دنیا کی وقتی راحتوں میں لگ کر اللہ کو بھول گئے تھے آج لوگ ان کو جانتے تک نہیں لیکن وہ چند مخلص صاحب ایمان لوگ جنہوں نے دنیا کی راحت و آرام کے مقابلے میں ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا اور اپنے دین کو بچانے کے لئے اپنے گھر بار تک کو چھوڑ دیا تھا ان کا تذکرہ قیامت تک زندہ جاوید رہے گا۔ کفار مکہ کو بتایا جارہا ہے کہ ہمارے سچے نبی نے حق و صداقت کی ایک ایک بات کو پہنچا دیا ہے اب اگر وہ اصحاب کہف کی طرح اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں تو وہ آخرت کی راحتیں اور دنیا کا سکون حاصل کرسکیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے دین اسلام کی سچائیوں سے منہ پھیرا تو پھر دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رہ جائیں گے۔
Top