Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ غار اور کھوہ کے رہنے والے ہماری قدرتوں میں کوئی حیرت ناک چیز تھے۔
لغات القرآن آیت نمبر 9 تا 12 حسبت تو نے گمان کیا۔ اصحب ساتھی۔ الکھف لمبا چوڑا غار۔ الرقیم کوہ، غار کا دوسرا نام۔ اویٰ ٹھکانہ بنا یا۔ الفتیۃ (فتی) جوان، نوجوان، نوعمر۔ ھیء بتا دے۔ مہیا کردے۔ رشد صحیح راستہ۔ نجات کا راستہ ہے۔ ضربنا ہم نے مارا۔ پردہ ڈالدیا۔ اذان (اذن) کان۔ سنین (سنۃ) سال ، کئی برس۔ عدد گنتی۔ الحزبین (حزب) دو جماعتیں۔ دو گروہ۔ احصی زیادہ واقف۔ لبثوا وہ ٹھہرے، رکے رہے۔ امد مدت۔ تشریح : آیت نمبر 9 تا 12 بعض یہودیوں کے کہنے پر کفار مکہ نے نبی کریم ﷺ سے اصحاب کہف کے واقعہ کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے پوچھا تھا اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ ان کے اس سوال کا جواب نہ دے سکیں گے اور ہمیں ان کا مذاق اڑانے کا موقع مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس کو بیان نہ کیا جاسکے بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ کی نشانیاں اس کائنات میں موجود ہیں جن پر اگر غور و فکر کیا جائے تو بہت سی حقیقتیں سامنے آتی چلی جائیں گی۔ اصحاب کہف کے واقعہ کو تفصیل سے بیان کرنے سیپ ہلے مختصر الفاظ میں بیان فرما دیا کہ یہ چند ایسے نوجوان تھے جو حضرت عیسیٰ کے پیروکار تھے۔ انہیں بت پرستی سے سخت نفرت تھی۔ ان کے زمانہ میں رومی شہنشاہ دقیانوس نے لوگوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ لوگ اس کی اور اس کے بنائے ہوئے بتوں کی عبادت و بندگی کریں۔ یہ چند نوجوان جن کو بتوں کے سامنے سجدہ کرنے پر مجبور کیا یا تو انہوں نے اپنے ایمان کو بچانے کے لئے ایک غار کو جو وادی رقیم میں واقع تھا اس میں پناہ لے لی تھی۔ انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی الٰہی ! ہم پر اپنا رحم و کرم نازل فرما اور ان ظالموں کے ظلم سے نجات عطا فرما۔ اللہ نے ان کی دعا کو قبول فرما کر ان پر ایک ایسی نیند کو طاری کردیا جس سے وہ برسوں پڑے سوتے رہے۔ جب تین سو نو سال کے بعد وہ سو کر اٹھے تو اس وقت ملک روم کی سلطنت اور اس کا انداز بالکل بدل چکا تھا اور بت پرستوں کا صفایا ہوچکا تھا ۔ اس واقعہ کی تفصیلات اگلی آیات میں آرہی ہیں۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ اصحاب کہف اللہ کی نشانیوں کی طرح ایک نشانی ہیں جس میں اللہ کی قدرت کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصحاب کون تھے ؟ کیا تھے ؟ کتنے تھے ؟ ان بحثوں میں الجھنے کے بجائے اصحاف کہف کے اس جذبہ کو پیش نظر رکھا جائے جس نے ان کو اپنے گھر بار اور اس کی راحتیں چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور وہ جذبہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور ایمان کی سلامتی تھا۔ اس جذبہ نے ان کو اللہ کی ایک ایسی نشانی بنا دیا تھا جو دوسروں کے لئے قیامت تک عبرت و نصیحت بن گئی۔ فرمایا کہ جب وہ نوجوان اس غار میں پہنچے تو اللہ نے ان کے کانوں پر تھپکی دی یعنی ان کو گہری نیند سلا دیا۔ پھر وہ اللہ کی نشانی بن کر اٹھے اور پھر سو گئے۔
Top