Baseerat-e-Quran - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اے ایمان والو ! تم اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ تم اجازت حاصل نہ کرلو اور اس کے گھر والوں کو سلام نہ کرلو۔ اس میں تمہارے لئے بہتری ہے تاکہ تم دھیان دے سکو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 27 تا 29 : لاتدخلوا (تم داخل نہ ہو) بیوت (بیت) گھر ‘ حتی تستأ نسوا (جب تک تم اجازت نہ لے لو) ‘ حتی یئو ذن ( جب تک اجازت نہ دی گئی ہو) ‘ ارجعوا (تم لوٹ جائو۔ پلٹ جائو) ‘ ازکی (ستھرائی پاکیزگی) ‘ غیر مسکونۃ ( جہاں کوئی رہتا نہ ہو۔ جیسے ہوٹل وغیرہ) متاع (سامان) ‘ تشریح : آیت نمبر 27 تا 29 : شریعت نے ناجائز جنسی تعلق (زنا) اور اس کی سزا ‘ لعان اور حد قذف کے احکامات بیان کرنے کے بعد چند ایسے بنیادی اصول ارشاد فرمائے ہیں جن سے معاشرہ میں فتنہ و فساد ‘ بےحیائی ‘ بےپردگی پھیلنے کے امکانات ختم کئے جاسکتے ہیں کیونکہ دین اسلام نے جہاں بد ترین گناہوں کی سخت ترین سزائیں متعین کی ہیں وہیں ان اسباب کو ختم کرنے پر بھی پوری طرح زور دیا ہے جن سے انسان ان برائیوں کے قریب جاسکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ دور میں ہر حکومت ناجائز جنسی تعلق اور دوسروں کی عزت آبرو پر تہمت و الزام لگانے والوں کی برائیوں کو بیان کرتی ہے لیکن ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش نہیں کرتی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر برائی پہلے سے زیادہ طاقت ور بن کر معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹتی چلی جارہی ہے۔ شراب ‘ زنا ‘ بدکاری اور سگریٹ نوشی کی برائیوں کو بیان کیا جاتا ہے مگر ان چیزوں سے چونکہ حکومت کو ٹیکس ملتا ہے اس لئے اس کی برائیوں میں ایک منافقت کا انداز اختیار کیا جاتا ہے مثلاً سگریٹ فروخت کی جاتی ہے۔ اس کے کارخانے چلانے کے لئے بنکوں کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے اشتہارات کے بورڈ لگانے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک معمولی سا اشتہار بھی دیا جاتا ہے کہ ” سگریٹ نوشی صحت کے لئے مضر ہے۔ وزارت صحت “۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز صحت کے لئے اس حد تک نقصان دینے والی ہے کہ اس سے کینسر جیسا موذی مرض پیدا ہوتا ہے اور لوگوں کی صحت برباد ہو کر رہ جاتی ہے جس سے لاکھوں انسان ہر روز اسی کی وجہ سے مرتے ہیں۔ آخر ایسی مضر اور خراب چیز کو بند کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اس خرابی کو جڑ و بنیاد سے کھود کر کیوں پھینک نہیں دیا جاتا ؟ وجہ یہ ہے کہ اس کہ اس کے ذریعہ کروڑوں اور اربوں روپے کا ٹیکس اور فائدے جو حاصل ہوتے ہیں۔ شریعت اس منافقت کو پسند نہیں کرتی بلکہ جس چیز کو برا کہتی اور سمجھتی ہے اس کو بنیادوں سے اجھاڑ کر پھینک دیتی ہے۔ چناچہ یہاں کچھ ایسے بنیادی اصول بیان کئے جارہے ہیں جن سے گناہوں کا راستہ بند ہوجاتا ہے مثلاً آپس میں ملنا جلنا ایک دوسرے کی خبر گیری کرنا ایک تمدنی اور معاشرتی ضرورت ہے لیکن اس میں بھی کچھ ایسے پہلو ہیں کہ اگر ان کا خیال نہ کیا جائے تو اس سے بہت سی معاشرتی خرابیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ لہٰذا شریعت اسلامیہ نے گناہوں کی سزا مقرر کرنے کے بعد ان کی طرف جانے والے ہر راستے کو بند کردیا ہے۔ اس کا سب سے پہلا اصول یہ مقرر فرمایا کہ ایک دوسرے سے ملنے جلنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر اس میں ایک خاص اصول کا خیال رکھا جائے تاکہ نہ کسی کو تکلیف ہو اور نہ بےحیائی کا راستہ کھل سکے۔ مثلاً عربوں میں طریقہ یہ تھا کہ وہ صبح بخیر اور شام بخیر کہہ کر کسی کے بھی گھر میں بےتکلف داخل ہوجایا کرتے تھے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ایک شخص اس کو پسند نہیں کرتا کہ فلاں وقت اس کے گھر میں کوئی بھی آئے مگر معاشرتی طریقوں کی وجہ سے وہ مجور ہوجاتا تھا کہ وہ دوسروں کا لحاظ کرے اور آنے والے کا خیر مقدم کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوء فرمایا کہ اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اس گھر میں رہنے والوں کی طرف سے مناسب اجازت نہ لے لو اور ان کو سلام نہ کرلو۔ اگر وہ خوشی سے اجازت دیدیں تو ان کے گھروں میں داخل ہو جائو لیکن اگر وہ سلام کا جواب نہ دیں یا وہ اس وقت ملنا نہ چاہیں تو دل میں تنگی محسوس نہ کرو اور واپس لوٹ جائو کیونکہ ہو سکتا ہے وہ شخص جس سے آپ ملنا چاہتے ہیں وہ کسی خاص کام یا آرام میں مصروف ہو اور وہ اس وقت ملنا نہ چاہتاہو۔ اگر وہ انکار کردے تو اس بات کو برا محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخ صتم سے ملاقات کے لئے آئے تو اس کو اپنے گھر آنے کی اجازت دو کیونکہ تمہارے اوپر اس آنے وال کا بھی ایک حق ہے۔ اس کو پاس بلائو یا باہر جا کر اس سے ملاقات کرو۔ اس کا اکرام و احترام کرو۔ اس کی بات سنو بغیر کسی شدید مجبوری کے کسی سے ملنے سے انکار نہ کرو۔ نبی کریم ﷺ نے اسی سلسلہ میں چند ارشادات فرمائے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) آپ جس سے ملنے جارہے ہیں اس گھر کے مالک کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں داخل ہونا گناہ ہے۔ (2) گھر کے باہر ایک طرف کھڑے ہو کر سلام کرو۔ اگر وقفہ وقفہ سے تین مرتبہ سلام کرنے کے باوجود کوئی جواب نہ آئے تو دل میں کسی طرح کی تنگی محسوس کئے بغیر لوٹ جائو۔ (3) اگر گھر کی بناوٹ ایسی ہو کہ وہاں تک آپ کی آواز اور سلام کی آواز نہیں پہنچ سکتی تو گھنٹی بجا کر بھی اپنی بات پہنچائی جاسکتی ہے جب کوئی شخص باہر آئے تو سلام کرکے اور اپنا نام بتا کر داخلے کی اجازت مانگی جائے۔ (4) اگر ٹیلی فون کی سہولت حاصل ہے تو کسی کے گھر جانے سے پہلے اس کو فون کرلیا جائے لیکن اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ فون ایسے وقت نہ کیا جائے جو کسی کے راحت و آرام کا وقت ہو۔ (5) گھر میں داخل ہونے کے لئے والدہ اور بہنوں سے بھی اجازت لینے کی ضرورت ہے یا کم از کم اپنے گھر میں داخل ہونے کے لئے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے گھر والوں کو پتہ چل جائے کہ آپ گھر میں داخل ہورہے ہیں۔ ایک مرتبہ کسی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ کیا میں اپنی والدہ کے پاس جاتے وقت بھی اجازت لوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ان سے بھی اجازت لو۔ عرض کیا یا رسول اللہ میں تو اسی گھر میں رہتا ہوں دن رات والدہ کی خدمت کرتا ہوں میرے سوا ان کے پاس کوئی بھی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ والدہ کے پاس بھی جائو تو اجازت لے کر جائو۔ فرمایا کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھو۔ اس سلسلہ میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ کا قول ہے کہ ” علیکم ان تستاذ نوا امھاتکم احواتکم “ یعنی اپنی والدہ اور بہنوں کے پاس بھی جائو تو اجازت لے کر جائو (ابن کثیر) حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے پاس بھی جائو تو کم از کم کھنکار دو ۔ ان کی بیوی حضرت زینب ؓ کی روایت ہے کہ جب حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ گھر میں داخل ہوتے تو کچھ ایسی آواز پیدا کرتے جس سے معلوم ہوجاتا کہ وہ آ ہے ہیں۔ وہ اس کو پسند نہ کرتے تھے کہ کوئی بھی شخص اچانک آن کھڑا ہو۔ (ابن جریر طبری) (6) البتہ اگر کسی کے گھر میں آگ لگ جائے یا چور گھس آئیں تو اس وقت اجازت کا انتظار نہ کرے کیونکہ یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جس میں فوراً مدد کی ضرورت ہے۔ (7) اسی طرح جو گھر کسی کی ملکیت نہ ہوں اور نہ کوئی خاص آدمی یا فیملی وہاں رہتی ہو اور داخلے کی بلاروک ٹوک عام اجازت ہو تو وہاں بغیراجازت کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے مساجد ‘ خانقاہیں یا ہوٹل وغیرہ۔ (8) البتہ اگر مساجد ‘ خانقاہوں یا ہوٹلوں میں کچھ ایسی جگہیں مخصوص ہوں جو کسی وجہ سے خاص طور پر متعین ہیں تو ان میں بغیر اجازت داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ ان تمام اصولوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے سے میل ملاقات رکھے مگر کوئی شخص بھی اس سے ملاقات کے وقت ایسا انداز اختیار نہ کرے جس سے دوسرے کو کسی طرح کی بھی تکلیف یا کسی کے معاملے میں بےجامداخلت ہو۔ قل للمئو منین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ ۔ لعکم تفلحون (30 تا 31):
Top