Baseerat-e-Quran - An-Noor : 41
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ١ؕ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لَهٗ : اس کی مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالطَّيْرُ : اور پرندے صٰٓفّٰتٍ : پر پھیلائے ہوئے كُلٌّ : ہر ایک قَدْ عَلِمَ : جان لی صَلَاتَهٗ : اپنی دعا وَتَسْبِيْحَهٗ : اور اپنی تسبیح وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور پر پھیلائے ہوئے پرندے ہیں ان سب نے اپنی عبادت کا طریقہ اور اپنی تسبیح کو جان رکھا ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں ان سب باتوں کا علم اللہ کو ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 41 تا 46 : صفت (صافۃ) (صفیں بنانے والے۔ پر پھیلانے والے) ‘ یزجی (ازجائ) وہ ہانکتا ہے۔ چلاتا ہے) ‘ یئولف (ملادیتا ہے) ‘ رکاما (تہہ در تہہ ایک کے اوپر دوسرا) ‘ الودق (بارش) ‘ خلال (درمیان) ‘ برد (اولے۔ برف) ‘ یصرف (وہ پھیر دیتا ہے۔ پلٹا دیتا ہے) ‘ مسنا (چمک) ‘ یقلب (وہ بدلتا ہے) اولی الا بصار (آنکھوں والے۔ عقل رکھنے والے) ‘ دابۃ (جان دار۔ زمین پر رینگنے والا) ‘ بطن (پیٹ) رجلین (دونوں پاؤں ) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 41 تا 46 : اس سے پہلے آیات میں نہایت وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ اس کائنات میں صرف ایک اللہ کا نور ہدایت ہے جس کی روشنی اور رہنمائی میں سارا نظام کائنات چل رہا ہے۔ اسی بات کو ذرا اور تفصیل سے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ اس کائنات میں جتنی بھی ملوقات ہیں وہ اسی کے نور ہدایت سے فیض حاصل کر کے اسی کی عبادت و بندگی ‘ حمد وثناء اور تسبیح میں مشغول ہیں۔ جس کی جو ذمہ داری لگادی گئی ہے وہ اس کو نہایت احسن طریقہ پر انجام دے رہا ہے۔ لیکن وہ انسان جس کے لئے اس پوری کائنات کا نظام بنایا گیا ہے اور اس کی رہبری و رہنمائی کے لئے صراط مستقیم پر چلنے کے لئے واضح آیات اور نشانیوں کو بھیجا گیا ہے وہ ان پر نہ تو عمل کرتا ہے اور نہ عبرت ونصیحت حاصل کرتا ہے۔ زمین ‘ آسمان ‘ چاند ‘ سورج اور ستارے چرند ‘ پرند ‘ درند ‘ خشکی ‘ تری ‘ ہوا اور پانی میں بسنے والی بیشمار مخلوقات ہیں جو ہر وقت اللہ کی حمد وثناء اور عبادت و بندگی میں لگی ہوئی ہیں۔ جو اپنی ذمہ داری کو پہچانتی اور عمل کرتی ہیں لیکن انسان ان باتوں سے بےپرواہ غفلت اور غیر ذمہ داری کا انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔ فرمایا کہ انسان اگر ذرا غور و فکر اور تدبر سے کام لے تو اس پر یہ حقیقت پوری طرح کھل کر سامنے آجائے گی کہ اس کا رخانہ قدرت کو اللہ رب العالمین اپنی لامحدود طاقت و قوت سے چلا رہا ہے اور اس نے قدم قدم پر عبرت و نصیحت کے ہر پہلو کو اجاگر کردیا ہے اور اس نے اپنی نعمتوں کو ساری کائنات میں بکھیر دیا ہے۔ وہ نعمتیں کیا ہیں ؟ ان میں سے چند چیزوں کو بطور مثال بیان کردیا گیا ہے۔ فرمایا کہ تم دن رات اپنی آنکھوں سے پرندوں کو پر پھیلائے اور صفیں بنائے ہوئے اڑتے دیکھتے ہو۔ ان کو فضا میں کون سنبھالے ہوئے ہے۔ یقیناً ایک اللہ کے سوا دوسرا کون ہے۔ فرمایا کہ وہ پرندے ہر وقت اس کی تسبیح اور عبادت و بندگی میں مشغول ہیں ۔ ان کے منہ سے نکلنے والی آوازیں درحقیقت اللہ کی حمد و ثنا کی گونج ہیں جنہیں عام آدمی سمجھنے سے قاصر اور مجبور ہے۔ البتہ اگر اللہ کسی کو اس بات کی صلاحیت عطا فرمادے کہ وہ ان کی تسبیح کو سمجھ سکے تو یہ ممکن ہے۔ جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے تمام جان داروں کی بولیاں سمجھنے کی صلاحیت دی تھی۔ اسی طرح رسو ل اللہ ﷺ کے دست مبارک میں کنکریوں کا تسبیح کرنا جس کو صحابہ کرام ؓ نے بھی اپنے کانوں سے سنا۔ فرمایا کہ غور کرے کی بات ہے کہ اللہ نے ان پرندوں کو پیدا کیا اور ان کی مناسب رہنمائی فرمائی جس سے وہ اپنی غذا حاصل کرتے ‘ گھونسلے بناتے اور پانا ٹھکانا تلاش کرلیتے ہیں۔ اللہ نے ان کی فطرت میں یہ صلاحیت عطا فرمائی اور اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرمایا ہے۔ بادلوں اور بارشوں کی مثال دے کر فرمایا کہ اللہ نے کیسا عجیب نظام بنایا ہے کہ سمندر سے مون سون اٹھتا ہے اور وہ بادلوں کی شکل میں تہہ درتہہ پہاڑروں جیسے بن جاتے ہیں۔ جو فضا میں تیرتے پھرتے ہیں۔ زیادہ گہرے ہوں تو وہ کالی گھٹابن کر چھا جاتے ہیں۔ ان ہی میں بجلی کی تیز چمک او ہیبت ناک کڑک ہوتی ہے۔ کبھی وہ بادل بوندیں بن کر برستے ہیں اور کبھی موسلادھار بارش بن کر۔ کبھی وہ اولوں کی شکل میں اور کبھی وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جم جاتے ہیں جن سے پورے سال انسان اور جانور اپنی زندگی کا سامان حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح دن اور رات کا آنا جانا بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ کبھی دن ہے کبھی رات۔ انسان دن کی روشنی میں اپنارزق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرتا ہے اور سخت محنت کے بعد وہ رات کو آرام کر کے تازہ دم ہوجاتا ہے۔ اگر ہر وقت دن ہی دن ہوتا یا رات ہی رات ہوتی تو انسان نہ صرف یکسانیت سے اکتا جاتا بلکہ وہ محنت اور آرام بھی نہ کرسکتا۔ اسی طرح اللہ نے موسموں کو بھی مختلف بنایا ہے کبھی گرمی کبھی سردی کبھی خزاں اور کبھی بہار یہ سب کچھ اللہ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانیاں ہیں۔ جانوروں کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اس نے ہزاروں لاکھوں قسم کے خشکی اور تری پر جان دار پیدا کئے کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے گھسٹ رہا ہے۔ کوئی دو ٹانگوں پر چل رہا ہے کوئی چار ٹانگوں پر ان میں سے بعض جانور ایسے بھی ہیں جو سواری کے کام آتے ہیں جو انسانوں کو اور ان کے بھاری سامانوں کو لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ یہ سواریوں کا ہونا بھی ایک نعمت ہے اور قیامت تک نجانے اللہ کیسی کیسی سواریاں بنائے گا۔ غرضیکہ سانپ ‘ کیڑے مکوڑے ‘ سمندر اور دریاؤں کے جانور ‘ انسان ‘ گائے ‘ بھینس ‘ گھوڑا یہ سب اپنے اپنے پاؤں پر چلتے ہیں اپنی اپنی غذا حاصل کرتے ہیں اور اپنے رہنے کے ٹھکانے بناتے ہیں۔ کائنات میں بکھری ہوئی یہ وہ حقیقتیں ہیں جن کو ہر شخص ہر آن دیکھتا اور برتتا ہے۔ لیکن ان سے عبرت و نصحیت حاصل نہیں کرتا۔ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ فرمایا کہ دنیا کے جانور تو وہ ہیں جن کی فطری رہنمائی کی گئی ہے لیکن انسان پر تو اللہ کا دہراکرم ہے کہ اس نے اس کو فطری صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے اور صراط مستقیم پر چلنے کے لئے اپنی آیات کو اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کے ذریعہ اس تک پہنچایا ہے۔ کائنات میں ہر چیز اللہ کے حکم کے مطابق چل رہی ہے لیکن انسان اس قدر نا شکرا ہے کہ وہ راستہ بھٹک کر اپنی منزل سے بہت دور نکل جاتا ہے اور اس بات کو بھول جاتا ہے کہ ایک اللہ ہی ہے جس نے اس سارے کارخانہ کائنات کو پیدا کیا ہے۔ وہی سب کا مالک اور خالق ہے اور سچی رہنمائی صرف وہی ہے جو اس نے انسانوں کو عطا فرمائی ہے۔
Top