بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
الۗمّۗ
لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 7 : حسب (گمان کیا۔ خیال کیا) ‘ لایفتنون (وہ آزمائے نہ جائیں گے) ‘ ساء (برا ہے) ‘ یرجوا ( امید رکھتا ہے) یجاھد ( وہ جدوجہد۔ کوشش کرتا ہے) ‘ غنی (بےنیاز) نکفرن ( ہم ضرور اتاردیں گے) نجزین ( ہم ضرور بدلہ دیں گے) احسن ( زیادہ بہتر) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 7 : اس سورت کا آغاز بھی حروف مقطعات سے کیا گیا ہے یعنی جن حروف کے معنی کا علم اللہ کو ہے۔ جب انسان حق و صداقت یعنی ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کرتا ہے تو اس کو باطل نظام زندگی اور ظالموں کی قوت و طاقت سے ٹکرانا پڑتا ہے۔ یہ اتنی بڑی آزمائش اور امتحان ہے کہ حالات کے سامنے اگر وہ ڈٹ کر اور جم کر کھڑا ہوجائے اور اپنے اندر ہر طرح کے طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا کرلے تو وہ مخالف حالات کی اس بھٹی سے کندن بن کر نکلتا ہے جس طرح سونے کو آگ میں تپایا جاتا ہے تو اس کا میل کچیل نکل جاتا ہے اور وہ سونا کندن بن جاتا ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو کچھ سعادت مندوں کے علاوہ پورے عرب کے لوگ آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑنے لگے جن کے تصور سے روح کا نپ اٹھتی ہے۔ لیکن نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ نے بےمثال قربانیوں اور صبر و تحمل کا پیکر بن کر ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کیا۔ اس خوف اور دہشت کے ماحول میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل رک کے اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ وہ کفار کی اس یلغار سے قطعاً پریشان نہ ہوں کیونکہ ان سے پہلے سچائی کے راستے پرچلنے والوں کو اس سے بھی زیادہ تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں۔ حالات کی یہ سختی درحقیقت اہل ایمان کا ایک امتحان ہے جو اچھے اور برے لوگوں کو چھانٹ کر رکھ دیتی ہے۔ لیکن اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جو بھی اس حق وصداقت کے راستے پر چلے گا ثابت قدم رہ کر ہر ظلم و ستم کو برداشت کرتاچلا جائے گا اس کو دنیا اور آخرت میں کامیاب و بامراد کیا جائے گا۔ سورئہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ” کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تمہیں جنت یوں ہی مل جائے گی اور تم اس میں داخل کردیئے جائو گے حالانکہ ابھی تو تم پر وہ حالات بھی نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے جو ایسی پریشانیوں اور تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا کئے گئے اور ہلا مارے گئے تھے کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے بھی کہہ اٹھے تھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سنو ! اللہ کی مدد بہت قریب ہے “۔ (سورئہ بقرہ) اسی طرح جب حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے اور صحابہ کرام ؓ پر ہر طرف سے کفار کے ظلم و ستم بڑھ گئے تو حضرت خباب ابن ارت ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اس وقت عرض کیا جب آپ کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے تھے۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ ہمارے لئے (ان برے حالات سے نکلنے کے لئے) دعاکیوں نہیں کرتے ؟ یہ سن کر آپ ﷺ کا چہرہ انور سرخ ہوگیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے جو اہل ایمان گذر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ تکلیفیں اور مصیبتیں آئی تھیں۔ ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر اس میں بٹھا دیا جاتا اور اس کے سر پر آرا چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے ‘ کسی کیبدن پر لوہے کے کھنگھے گھسے جاتے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے۔ اللہ کی قسم یہ کام پورا ہو کر رہے گا (نظام اسلام مکمل ہو کر رہے گا) یہاں تک کہ ایک شخص صنعا سے حضر موت تک بےخوف و خطر سفر کرے گا اور وہ اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ رکھے گا۔ (بخاری ‘ ابودائود ‘ ترمذی) خلاصہ یہ ہے کہ اس راہ عشق میں زبانی دعوے سے کام نہیں چلتا بلکہ دین کی سچائیوں کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے سے کامیابی کی منزل قریب آتی ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا ہے۔ ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یہ کہنے پر چھوڑدیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور وہ آزمائے نہ جائیں گے۔ حالانکہ ہم ان لوگوں کو بھی آزماچکے ہیں جو ان سے پہلے ہو گذرے ہیں۔ یقیناً اللہ ان کو ظاہر کرکے رہے گا جو سچائی کے علم بردار ہیں اور ان لوگوں کی حقیقت کو بھی کھول کر رکھ دے گا جو جھوٹے ہیں “۔ فرمایا ” وہ لوگ جو کفر اور گناہ کے راستے پر چل کر اہل ایمان کو ستا رہے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم سے نکل کر وہ کہیں بھاگ نکلیں گے بلکہ وہ ہماری نظروں میں ہیں۔ اگر وہ ایساسوچتے ہیں تو وہ ایک غلط فیصلہ کئے ہوئے ہیں یعنی وہ اللہ کی گرفت میں آکر رہیں گے “۔ اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ” وہ لوگ جو اللہ سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں ان کے لئے ایک وقت مقررہ ہے۔ وہ سن رہا ہے اور جانتا ہے۔ جو شخص (اللہ کی راہ میں) جدوجہد کرے گا اسکا فائدہ اسی کو پہنچے گا۔ بلاشبہ اللہ تو جہاں والوں سے بےنیاز ہے یعنی وہ کسی کی جدوجہد یا عبادت کا محتاج نہیں ہے۔ فرمایا جو لوگ ایمان لاکر بھلے اور نیک کام کریں گے تو ہم ان کے گناہ ضرور دور کردیں گے۔ اور وہ جو بھی عمل صالح کرتے ہیں اس پر انہیں زیادہ بہتر بدلہ اور صلہ عطا کیا جائے گا جو وہ کرتے رہے ہیں “۔ خلاصہ یہ ہے کہ دین کی سچائیوں کو دین بھر میں قائم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ایک مومن یہ نہیں دیکھتا کہ حالات کس قدر سنگین اور ناموافق ہیں بلکہ وہ اپنے ایمان کی قوت سے ہر طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے۔ اس میں اس بات کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حالات کو تبدیل کرلیتا ہے۔ وہ اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں رکھتا۔ صحابہ کرام ؓ اور ان کے بعد آنے والوں کا یہی حوصلہ اور بےخوفی تھی کہ ساری دنیا کی سلطنتیں ان کے قدموں کی دھول بن کر رہ گئی تھیں کیونکہ ان کے دلوں میں صرف ایک اللہ کا خوف تھا باقی وہ دنیا کی ہر طاقت کے خلاف آندھی طوفان کی طرح اٹھے اور دنیا کو ظلم و ستم سے پاک کرکے انسانیت کی اقدار کو قائم کرکے دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنادیا۔
Top