Baseerat-e-Quran - Al-Ankaboot : 8
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا١ؕ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا١ؕ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَوَصَّيْنَا : اور ہم نے حکم دیا الْاِنْسَانَ : انسان کو بِوَالِدَيْهِ : ماں باپ سے حُسْنًا : حسنِ سلوک کا وَاِنْ : اور اگر جَاهَدٰكَ : تجھ سے کوشش کریں لِتُشْرِكَ بِيْ : کہ تو شریک ٹھہرائے میرا مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تجھے بِهٖ عِلْمٌ : اس کا کوئی علم فَلَا تُطِعْهُمَا : تو کہا نہ مان ان کا اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ : میری طرف تمہیں لوٹ کر آنا فَاُنَبِّئُكُمْ : تو میں ضرور بتلاؤں گا تمہیں بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور ہم نے انسان کو والدین سے حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ اور اگر وہ اس بات کی کوشش کریں کہ تو کسی کو میرا شریک بنالے جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کا کہنا مت مان۔ تم سب کو میری طرف ہی پلٹ کر آنا ہے۔ پھر میں تمہیں ضرور بتائوں گا جو کچھ تم کرتے تھے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 8 تا 13 : وصینا ( ہم نے وصیت کی۔ ہم نے حکم دیا) جاھدا (دونوں نے کوشش کی) ‘ لاتطع ( کہنا مت مان۔ اطاعت نہ کر) انبی ( میں بتاؤں گا) اوذی ( تکلیف دی گئی) صدور (صدر) سینے ‘ نحمل ( ہم اٹھائیں گے) اثقال (ثقل) بوجھ ‘ یسئلن ( وہ ضرور سوال کئے جائیں گے) ۔ تشریح : آیت نمبر 8 تا 13 : کفر ‘ شرک اور منافقت اور بدترین خصلتیں اور عادتیں ہیں جن کی بدترین سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اللہ کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک کرنے والا مشرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ” بیشک اللہ اس بات کو معافر نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔ اور اس کے علاوہ وہ جس گناہ کو چاہے معاف کرسکتا ہے “۔ اگر کوئی مشرک اپنے شرک سے توبہ نہ کرے تو اس کی بخشش نہیں ہوگی اور اللہ اس کو کبھی معاف نہ کرے گا۔ کیونکہ شرک درحقیقت اللہ کی ذات پر براہ راست حملہ ہے جسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ شرک کتنا بڑا گناہ ہے اس کا اندازہ اس آیت سے بھی لگایا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ والدین جن کے ساتھ حسن سلوک جائز باتوں میں ان کی اطاعت و فرماں برداری اور بےغرض خدمت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تمام انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور اہم حق ماں باپ کا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ مومن ہیں یا کافرو مشرک ہر حال میں ان کے ساتھ حسن سلوک ضروری ہے۔ لیکن اگر والدین اپنی اولاد پر دبائو ڈالیں اور زور دیں کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک یا گناہ کریں تو اس میں ان کی قعطاً اطاعت و فرماں برداری نہیں کی جائے گی۔ بلکہ اس کا صاف انکار کردینا لازمی اور ضروری ہے۔ کیونکہ والدین کے حقوق اس وقت تک قابل احترام ہیں جب تک خالق کے حقوق سے نہ ٹکرائیں۔ اگر خالق اور والدین کے حقوق آپس میں ٹکراجائیں تو ہر حال میں اپنے خالق ومالک اللہ کا حکم ماننا ضروری ہوگا ۔ اسی لئے صاف حکم موجود ہے کہ لا طاعتہ المخلوق فی معصیتہ الخالق خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے حضرت سعد ابن ابی وقاص ان دس خوش نصیب صحابہ ؓ میں سے ایک ہیں جن کو دنیا ہی میں جنتی ہونے کی خوشخبری اور بشارت دی گئی ہے۔ یہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ ان کے واقعات زندگی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنی والدہ غمنہ بنت ابی سفیان سے والہانہ محبت کرتے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری میں ایک مثال تھے۔ جب حضرت سعد ؓ نے دین اسلام قبول کرلیا اور اس بات کی اطلاع ان کی والدہ کو ہوئی تو وہ بہت ناراض ہوئیں اور ان پر شدید دبائو ڈالا کہ وہ اس دین کو چھوڑ کر اپنے باپ دادا کے مذہب کو پھر سے اختیار کرلیں۔ انہوں نے حضرت سعد ؓ پر دبائو ڈالنے کے لئے قسم کھالی کہ جب تک وہ اس دین کو نہ چھوڑیں گے اس وقت تک وہ نہ کھائیں گی پئیں گی اور نہ سائے میں بیٹھیں گی۔ انہوں نے کہا میں اسی طرح بھوکی پیاسی مرجاؤں گی۔ انہوں نے حضرت سعد نے کہا کہ اگر اسی حالت میں مر گئی تو ساری دنیا تجھے طعنے دے گی اور کہے گی کہ تو اپنی ماں کا قاتل ہے۔ حضرت سعد ؓ کے لئے یہ بہت کڑا اور کھٹن امتحان تھا۔ ایک طرف والدہ کی اطاعت و محبت اور دوسری طرف ان کی اپنی آخرت کا مسئلہ تھا۔ آخرکار انہوں نے دین اسلام پر استقامت کا فیصلہ کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اے اماں جان ! اگر آپ کی سوجانیں بھیہوں اور وہ ایک ایک کر کے نکلتی جائیں تو اللہ کی قسم میں حضرت محمد ﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار نہ کروں گا۔ آگے آپ کی مرضی ہے۔ آپ جو چاہے کریں۔ حضرت سعد ؓ کے اس فیصلے کو سن کر ان کی والدہ قطعاً مایوس ہوگئیں اور انہوں نے اپنی قسم توڑ ڈالی اور خاموشی اختیار کرلی۔ (مسلم ‘ ترمذی) اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا ہے کہ ” ہم نے انسان کو الدین سے حسن سلوک کی وصیت (تاکید) کی ہے۔ لیکن اگر وہ (والدین) اس بات کی کوشش کریں کہ تو کسی کو میرا شریک بنالے جس کا تجھے علم بھی نہیں ہے تو ان کا کہنا مت مان۔ کیونکہ تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ پھر میں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے تو میں ان کو اپنے نیک بندوں میں شامل کروں گا۔ “ شرک جس طرح ایک بدترین خصلت اور عادت ہے اسی طرح منافقت بھی برائی میں شرک سے کم نہیں ہے۔ جس کی نہایت ہیبت ناک سزا مقرر فرمائی گئی ہے۔ فرمایا کہ بعض وہ منافق ہیں جو زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے۔ لیکن اگر ان پر ذرا بھی کوئی آزمائش آجاتی ہے جس سے وہ کسی مشکل یا مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسے ایک عذاب سمجھنے لگتے ہیں۔ اور فوراً ہی بدل جاتے ہیں اور کفار کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں اور ان کو ایمان جیسی نعمت معمولی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی منافقت کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو کوئی فتح و نصرت اور کامیابی مل جاتی ہے تو وہ مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا ان نادانوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ کو ان کیدلی جذبات اور ان کی تمام حرکتوں کا پوری طرح علم ہے۔ کیونکہ ایک آدمی اپنی کسی بات کو ساری دنیا سے چھپاسکتا ہے۔ لوگوں کی نظروں میں دھول جھونک کر ان کو دھوکا دے سکتا ہے لیکن وہ اپنے اندرونی جذبات کو اللہ سے نہیں چھپا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کس کے دل میں ایمان ہے اور کون منافقت کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مشرکین اور منافقین کے ساتھ ساتھ کافروں کا ذکر بھی کیا ہے۔ جو ایمان والوں سے کہتے تھے کہ تم ہمارے کہنے سے دین اسلام کو چھوڑ کر اپنے باپ دادا کیمذہب پر پلٹ آئو تاکہ دنیا میں اور آخرت میں ہر طرح کے نقصانات اور تکلیفوں سے محفوظ ہو جائو۔ ان کا خیال یہ تھا کہ دین اسلام کو چھوڑ دینا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر آخرت میں پوچھ گچھ ہوئی تو ہم تمہارا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھالیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کیبوجھ اٹھان کے قابل کہاں ہوں گے کیونکہ ان پر تو ویسے ہی دوھرے گناہوں گے ایک بوجھ تو خود گمراہ ہونے کا اور دوسرے اوروں کو گمراہ کرنے اور بھٹکانے کا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ وہاں تو ایسی نفسانفسی ہوگی کہ ہر ایک کو اپنی فکر پڑی ہوگی۔ وہاں کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو گناہ پر آمادہ کرتا ہے یا کسی برے راستے پر لگاتا ہے تو اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ دوسرے کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کو ہدایت کے راستے پر لگائے گا تو اس کو بھی اجر وثواب ملے گا جس نے کسی کو سیدھے راستے پر لگایا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ‘ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے تو جتنے لوگ اس کی بات مان کر ہدایت پر عمل کریں گے ان سب کا ثواب اس دعوت دینے والے کو بھی ملے گا بغیر اس کے کہ بلاتا ہے تو جتنے لوگ اس کی بات مان کر ہدایت پر عمل کریں گے ان سب کا ثواب اس دعوت دینے والے کو بھیملے گا بغیر اس کہ عمل کرنے والوں کے اجروثواب میں کوئی کمی آئے۔ اسی طرح جو شخص کسی کو گناہ یا گمراہی کے راستے پر بلائے گا اور وہ اس گناہ میں مبتلا ہوگا تو اس کے کہنے سے جو بھی گمراہ ہوگا اس کے برے اعمال کا وبال اس گمراہ کرنے والے پر بھی ہوگا۔ اور ان کے عذاب میں کوئی کمی نہ آئے گی۔ (مسلم ‘ ابن ماجہ ‘ قرطبی)
Top