Baseerat-e-Quran - Yaseen : 45
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمُ : ان سے اتَّقُوْا : تم ڈرو مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : تمہارے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَكُمْ : تمہارے پیچھے لَعَلَّكُمْ : شاید تم تُرْحَمُوْنَ : پر رحم کیا جائے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ( اس عذاب سے ) ڈرو جو تمہارے آگے ہے اور جو کچھ تمہارے پیچھے ہے۔ تا کہ تم پر رحم و کرم کیا جائے
لغات القرآن : آیت نمبر 45 تا 54 :۔ بین ایدی ( سامنے) خلف ( پیچھے) انطعم (کیا ہم کھلائیں) صحیۃ (چنگھاڑ، زور دار آواز) یخصمون ( وہ جھگڑ رہے ہوں گے) الاجداث (قبریں) ینسلون ( وہ دوڑیں گے) لاتجزون ( بدلہ نہ دیئے جائیں گے) ۔ تشریح آیت نمبر 45 تا 54 :۔ نبی کریم ﷺ جب کفار و مشرکین سے کہتے کہ میں جن آیات اور کلام الٰہی کو لے کر آیا ہوں اس پر ایمان لائو۔ اللہ کا خوف اختیار کرو تا کہ تم پر دنیا میں اور آخرت میں رحم و کرم ناز ل کیا جائے اور اپنے سے غریب ، مفلس اور ضرورت مندوں پر اپنا مال خرچ کرو ۔ تو وہ اللہ کی آیات اور نبی کریم ﷺ کی باتوں کا مذاق اڑاتے اور جاہلانہ اعتراضات کر کے اپنے آپ کو مطمئن ظاہر کر کے بےنیازی دکھایا کرتے تھے۔ جب ان سے یہ کہا جاتا کہ اللہ نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اس کو جائز طریقے پر خود بھی استعمال کرو اور اپنے ان غریب بھائی ، بہنوں ، رشتہ داروں اور ضرورت مندوں پر بھی خرچ کرو اور ان کے کھانے پینے کا بندوست کرو جو غریب و مفلس ہیں تو وہ اپنے اوپر سے باٹ ٹالنے اور مذاق اڑانے کے لئے کہتے کہ جس کو اللہ ہی نے بھوکا رکھا ہے ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کو کھلائیں پلائیں ۔ وہ جانے اس کا رب جانے ہم سے ایسی گمراہی کی باتیں نہ کرو ۔ جب سب کا رازق اللہ ہے تو وہی ان کا پیٹ بھرے گا ۔ ان لوگوں نے اتنی بڑی بات کہتے وقت یہ نہ سوچا کہ اگر کوئی آدمی دوسرے کو کچھ دے کر اس کی مدد کرتا ہے یا بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے تو وہ اس کا رازق نہیں بن جاتا بلکہ وہ اللہ کے رق میں سے دوسرے کو دینے کا واسطہ بن جاتا ہے جس پر اس کا اجر وثواب ملتا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو اس کو براہ راست بھی دے سکتا ہے جس طرح وہ حیوانات کے بغیر کسی واسطے کے دیتا ہے۔ ہر جان دار زمین کے مختلف گوشوں سے اپنا رزق حاصل کرتا ہے۔ وہ اپنا رزق حاصل کرنے میں کسی کارخانے اور دکان کا محتاج نہیں ہوتا جب کہ انسان کی ضروریات کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہر شخص اپنا رزق روزی حاصل کرنے میں دوسرے کا محتاج ہے۔ اگر غریب اور ضرورت مند آدمی مال داروں کے کارخانوں اور دوکانوں وغیرہ میں کام نہ کرے تو دولت مندوں کو عیش و آرام کے اسباب کہاں سے مل سکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر صاحب حیثیت اور مال دار کو غریبوں اور حاجت مندوں کی ضرورت نہ ہو تو وہ غریب اپنا پیٹ کہاں سے بھریں گے ۔ اللہ نے ایسا نظام بنا دیا ہے کہ ہر شخص اپنے راحت و آرام کے اسباب اور رزق حاصل کرنے میں ایک دوسرے کا محتاج ہے۔ اسی طرح جب ان سے کہا جاتا تھا کہ لوگو ! قیامت تم سے دور نہیں ہے۔ اس کا آنا یقینی ہے جس میں اللہ و رسول کے نافرمانوں کو سخت ترین عذاب دیا جائے گا ۔ تم اس عذاب سے بچنے کی تدبیریں کرو اور تم نے دنیا میں جو کچھ اعمال کئے ہیں ان کا حساب کتاب لیا جائے گا ۔ اس کی تیاری کرو ۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوئے تو اس دن تم پر رحم و کرم کیا جائے گا ورنہ ابدی جہنم کے انگاروں پر تڑپنا ہوگا ۔ وہ یہ سب باتیں سن کر بےپروائی سے منہ پھیر کر چل دیتے اور کہتے کہ وہ قیامت کب آئے گی ؟ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں ۔ اگر واقعی قیامت آنے والی ہے تو اس کو لے آئو تا کہ یہ روز روز کا جھگڑا ہی ختم ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے اس جاہلانہ جواب پر یہ نہیں فرمایا کہ قیامت کب آئے گی بلکہ یہ فرمایا کہ تم اس مسئلہ میں جھگڑ رہے ہو گے اور قیامت اچانک آجائے گی تو پھر کسی کو ذرا بھی مہلت نہیں دی جائے گی ۔ فرمایا کہ ایک کرخت ، سخت اور ہیبت ناک آواز کے ساتھ اس طرح قیامت تمہارے سروں پر آپہنچے گی کہ تمہیں اس سے چند لمحے پہلے تک کچھ خبر نہ ہوگی ۔ فرمایا کہ جب پہلی مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو ساری دنیا ایک لمحہ میں اس طرح ختم ہوجائے گی کہ نہ کسی کو وصیت کرنے کا موقع ملے گا اور نہ گھر لوٹنے کا اور جب دوسری مرتبہ صور میں پھونک ماری جائے گی تو مردے بھی اپنی اپنی قبروں سے نہایت خوف اور بد حواسی کی حالت میں اٹھ کر اللہ کی طرف دوڑنا شروع ہوجائیں گے۔ جب ان کو آخرت کا ہیبت ناک عذاب نظر آئے گا تو وہ اپنی قبروں کے عذاب کو بھی بھو ل کر کہیں گے کہ وہ عذاب قبر تو کچھ بھی نہ تھا یہ عذاب بڑا سخت ہے اس عذاب کے مقابلے میں اگر ہمیں عذاب قبر ہی میں رہنے دیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔ ہمیں ہماری قبروں سے کس نے اٹھا کھڑا کیا ۔ اس پر کہا جائے گا کہ یہی وہ میدان حشر ہے جس کا تم سے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور اسی دن کے عذاب سے بچنے کے لئے اللہ کے تمام رسولوں نے خبردار اور آگاہ کیا تھا اور اس سچائی کو بیان کیا تھا ۔ دوسرا یہ صور در حقیقت ایک چنگھاڑ یا دھماکہ ہوگا جس کے بعد ہر شخص کو اللہ کے سامنے حاضر کیا جائے گا ۔ یہ وہ انصاف کا دن ہوگا کہ جہاں پر نیکی کرنے والے کو اس کی ہر نیکی پر اجر وثواب عطاء کیا جائے گا اور جس نے کوئی گناہ یا خطاء کیا ہوگا اس کو انصاف کے ساتھ اس کا بدلہ دیا جائے گا ۔ ان آیات کی وضاحت نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے اس طرح ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ لوگ راستوں پر چل رہے ہوں گے ، بازاروں میں خریدو فروخت کی جا رہی ہوگی ، لوگ اپنی محفلوں میں بیٹھے گفتگو اور باتیں کر رہے ہوں گے کہ اچانک صور پھونکا جائے گا ۔ کوئی کپڑا خرید رہا تھا تو ہاتھ سے کپڑا نیچے رکھنے کی نوبت نہ آئے گی ، کوئی جانوروں کو پانی پلانے کے لئے پانی کا حوض بھر رہا ہوگا وہ پانی نہیں پلائے گا کہ اچانک قیامت آجائے گی ۔ کوئی کھانے بیٹھا ہوگا اور لقمہ اٹھا کر منہ تک لے جانے کی بھی اس کی مہلت نہ ملے گی ۔ ( بروایت حضرت عبد اللہ ابن عمرو ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت قائم ہوجائے گی حالانکہ آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دوھ رہا ہوگا برتن اس کے منہ تک پہنچے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی ۔ اور دو آدمی کپڑے کی خریدو فروخت کر رہے ہوں گے ۔ ابھی ان کی گفتگو جاری ہوگی کہ قیامت قائم ہوجائے گی اور کوئی اپنا پانی کا حوض درست کر رہا ہوگا اور ابھی ہٹا نہ ہوگا کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ ( مسلم شریف)
Top