Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 41
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا٢ؕؐ
فَكَيْفَ : پھر کیسا۔ کیا اِذَا : جب جِئْنَا : ہم بلائیں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت بِشَهِيْدٍ : ایک گواہ وَّجِئْنَا : اور بلائیں گے بِكَ : آپ کو عَلٰي : پر هٰٓؤُلَآءِ : ان کے شَهِيْدًا : گواہ
بھلا اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر ایک جماعت میں سے ایک ایک کو حالات بتانے کے لئے بلائیں گے اور (اے محمد ﷺ آپ کو ان لوگوں پر یعنی آپ کی امت پر گواہ کے طور پر لائیں گے
آیت نمبر 41-42 لغات القرآن : جئنا، ہم لے آئے۔ امۃ، جماعت، گروہ۔ شھید، گواہ۔ یود، پسند کرتا ہے۔ عصوا، انہوں نے نافرمانی کی۔ لوتسوی، کاش برابر ہوجائے۔ حدیث، بات۔ تشریح : یہ بات گزشتہ آیات میں کہہ دی گئی تھی کہ کنجوسی کرنے والا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔ وہ شیطان کی باتوں پر چلتا ہے۔ اس طرح وہ کفر سے قریب ہے۔ آیات 41-42 میں قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے کہ میدان محشر میں باری باری ہر نبی کی امت آئے گی۔ وہ نبی بتائیں گے کہ انہوں نے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کی لیکن بہت سے لوگ کافر رہے۔ وہ ان کافروں کی نشان دہی کریں گے۔ سب سے آخر میں حضور نبی کریم ﷺ آئیں گے اور اپنی امت کے اعمال و افعال پر گواہی دیں گے کہ کس نے انہیں مانا اور کس نے کہاں تک نہیں مانا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ حضور ﷺ کی امت آپ کی بعثت سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسان ہیں۔ اس وقت وہ لوگ جو کافر رہے یا کفر سے قریب رہے وہ اپنے سامنے دوزخ دیکھیں گے۔ اس سے بچنے کے لئے ہر ممکن جتن کریں گے اور تمام جتن ناکام ہوجائیں گے۔ پھر وہ یہی تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ مگر یہ تمنا پوری نہ ہوگی اور اللہ تعالیٰ سے وہ اپنی کوئی حرکت چھپا نہ سکیں گے۔ آیت نمبر 41 ختم نبوت پر ایک دلیل بھی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ حضور اپنی امت پر بھی اور تمام امتوں پر بھی گواہی دیں گے۔ شاہد اور شہید میں یہ فرق ہے کہ شاہد صرف ایک زمانہ کے لئے ہے لیکن شہید تمام زمانوں کے لئے۔ اور حضور ﷺ شہید (گواہ) بھی ہیں اور شاہد بھی۔ اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو آپ کی حیثیت شہید کی نہ ہوتی۔ اور قرآن میں لفظ شہید آیا ہے جو آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
Top