Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
کیا آپ نے ان لوگوں کے حالات پر غور کیا جن کو کتاب (توریت) کے علم سے ایک حصہ دیا گیا ہے مگر وہ لوگ گمراہی خرید رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی صحیح راہ سے بھٹک جاؤ۔
آیت نمبر 44-47 لغات القرآن : الم تر، کیا تو نے نہیں دیکھا ؟ ۔ یشترون، خریدتے ہیں۔ اعداء، دشمن (عدو کی جمع ہے) ۔ مواضع، موقع و محل (موضع، جگہ، موقع) ۔ غیر مسمع، نہ ہو سننے والا۔ لی، مروڑنا۔ السنۃ، زبانیں (لسان کی جمع ہے) ۔ طعن، طعنہ دینا، عیب لگانا۔ اقوم، زیادہ بہتر۔ نطمس، ہم مٹا دیں ہم بگاڑ دیں۔ نرد، ہم پھیر دیں۔ ادبار، پیٹھ (دبر، پیٹھ) ۔ اصحاب السبت، ہفتہ والے (بنی اسرائیل میں سے جن کو مچھلیوں کے شکار سے آزمایا گیا) ۔ امر اللہ، اللہ کا حکم۔ تشریح : ان آیات میں مجلسی آدب بتائے گئے ہیں۔ جان بوجھ کر ذومعنی الفاظ کہنا سخت منع ہے جو بظاہر احترام اور عزت کے ہیں لیکن حقیقتاً حقارت اور ذلت کے الفاظ ہیں اور محض تلفظ کے الٹ پھیر سے معنی کہیں سے کہیں چلے جاتے ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کی محفل میں منافق بھی ہوا کرتے تھے جب حضور کوئی بات فرماتے تو وہ سمعنا کہتے یعنی ہم نے سن لیا لیکن ساتھ ہی ساتھ چپکے سے عصینا بھی کہتے یعنی ہم نہیں مانیں گے۔ کچھ اس طرح زبان لچکا کر لفظ عصینا کو ادا کرتے کہ سننے میں اطعنا بھی آتا یعنی ہم مانیں گے اسی طرح وہ حضور ﷺ کو اور مسلم حاضرین محفل کو یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ ہم نے سن لیا ہے اور ہم عمل کریں گے لیکن حقیقت میں وہ یہی کہتے کہ ہم نے سن لیا ہے لیکن ہم ہرگز عمل نہیں کریں گے۔ اور اسطرح اپنے دل کا غبار نکالتے رہتے تھے۔ اس طرح راعنا کہا کرتے۔ عین کو زبان سے د با کر کہتے اور اس طرح اس کے معنی کو تذلیل و تحقیر کی طرف لے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کی ان تمام حرکتوں کو سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا کہ کوئی دھوکا نہ کھائے اور ان کا فریب سب پر ظاہر ہوجائے۔ ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ ذو معنی الفاظ کا استعمال کرنا سخت گناہ ہے جو ظاہر میں کچھ ہیں اور باطن میں کچھ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ کون سے صحیح الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے جن سے سوائے عزت اور تعظیم کے کوئی دوسرے معنی نہ نکلتے ہوں۔ اس قسم کے ذو معنی الفاظ صرف وہی بول سکتے ہیں جن کے اندر ایمان نہیں اور ان پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مخاطب کرکے یہ بھی ہوشیار کردیا ہے کہ ایمان لاؤ ورنہ ایک دن اللہ کا عذاب آجائے گا۔ تمہارا سامنے کا چہرہ بگاڑ کر پیچھے کی طرف کردیا جائے گا۔ یا تمہیں اس طرح سے لعنت زدہ کرکے بندر بنا دیا جائے گا جس طرح سبت والوں کے ساتھ ہوا جس کا ذکر سورة بقرہ میں ہے۔ اللہ نے یہ بھی خبردار کردیا ہے کہ ہمارا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔
Top