Bayan-ul-Quran - Al-Faatiha : 3
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
الرَّحْمٰنِ : جو بہت مہربان الرَّحِيم : رحم کرنے والا
بہت رحم فرمانے والا نہایت مہربان ہے
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ رحمت کے مادہ سے یہ اللہ کے دو اسماء ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے ؟ رَحْمٰن ‘ فَعْلَان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ‘ چناچہ اس کے اندر مبالغہ کی کیفیت ہے ‘ یعنی انتہائی رحم کرنے والا۔ اس لیے کہ عرب جو اس وزن پر کوئی لفظ لاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نہایت شدت ہے۔ مثلاً غَضْبان ”غصہ میں لال بھبھوکا شخص“۔ سورة الاعراف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے الفاظ آئے ہیں : غَضْبَانَ اَسِفًا ”غصہ اور رنج میں بھرا ہوا“۔ عرب کہے گا : اَنَا عَطْشَانُ : میں پیاس سے مرا جا رہا ہوں۔ اَنَا جَوْعَانُ : میں بھوک سے مرا جا رہا ہوں۔ تو رحمن وہ ہستی ہے جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہے۔ اور ”رَحِیْم“ فعیل کے وزن پر صفت مشبہّ ہے۔ جب کوئی صفت کسی کی ذات میں مستقل اور دائم ہوجائے تو وہ فعیل کے وزن پر آتی ہے۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ دونوں صفات اکٹھی ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند بھی ہے اور اس کی رحمت میں دوام بھی ہے ‘ وہ ایک دریا کی طرح مستقل رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی یہ دونوں شانیں بیک وقت موجود ہیں۔ ہم اس کا کچھ اندازہ ایک مثال سے کرسکتے ہیں۔ فرض کیجیے کہیں کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہو اور وہاں آپ دیکھیں کہ کوئی خاتون بےچاری مرگئی ہے اور اس کا دودھ پیتا بچہ اس کی چھاتی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ یہ بھی پتا نہیں ہے کہ وہ کون ہے ‘ کہاں سے آئی ہے ‘ کوئی اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر ہر شخص کا دل پسیج جائے گا اور ہر وہ شخص جس کی طبیعت کے اندر نیکی کا کچھ مادہ ہے ‘ چاہے گا کہ اس لاوارث بچے کی کفالت اور اس کی پرورش کی ذمہ داریّ میں اٹھا لوں۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ جذبات کے جوش میں آپ یہ کام تو کر جائیں لیکن کچھ دنوں کے بعد آپ کو پچھتاوا لاحق ہوجائے کہ میں خواہ مخواہ یہ ذمہ داری لے بیٹھا اور میں نے ایک بوجھ اپنے اوپر ناحق طاری کرلیا۔ چناچہ ہمارے اندر رحم کا جو جذبہ ابھرتا ہے وہ جلد ہی ختم ہوجاتا ہے ‘ وہ مستقل اور دائم نہیں ہے ‘ جبکہ اللہ کی رحمت میں جوش بھی ہے اور دوام بھی ہے ‘ دونوں چیزیں بیک وقت موجود ہیں۔
Top