Bayan-ul-Quran - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
اور (اے نبی !) آپ تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے آپ کے رب کی کتاب میں سے اس کی باتوں کو بدلنے والا کوئی نہیں ہے اور آپ نہیں پائیں گے اس کے سوا کوئی جائے پناہ
آیت 27 وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ یعنی اس وقت آپ بہت مشکل صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کیفیت میں آپ کو صبر و استقامت کی سخت ضرورت ہے : وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ الاَّ باللّٰہِ النحل : 127 ”اور اے نبی ! آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ کے سہارے پر ہی ہے“۔ یہ سہارا آپ کو اللہ کے ساتھ اپنا قلبی تعلق اور ذہنی رشتہ استوار کرنے سے میسر ہوگا اور یہ تعلق مضبوط کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ّ تمسک بالقرآن کا یہ مضمون سورة العنکبوت میں اکیسویں پارے کے آغاز میں دوبارہ آئے گا۔ حق و باطل کی کشمکش میں جب بھی کوئی مشکل وقت آیا تو رسول اللہ کو خصوصی طور پر تمسک بالقرآن کی ہدایت کی گئی ‘ اور آپ کی وساطت سے تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیں قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت اس کے ساتھ صرف کریں۔ اسی طرح وہ مشکلات و شدائد کو برداشت کرنے اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ڟ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا یقیناً یہ راستہ بہت کٹھن ہے اور اس راستہ کے مسافروں نے سختیوں کو بہر حال برداشت کرنا ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے جو کسی کے لیے تبدیل نہیں کیا جاتا۔ اس مہم میں واحد سہارا اللہ کی مدد اور نصرت ہے۔ چناچہ اگر آپ کو کہیں پناہ ملے گی تو اللہ ہی کے دامن میں ملے گی اس در کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے اسی مضمون کی ترجمانی اپنے اس شعر میں کی ہے : نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی میرے جرم خانہ خراب کو ‘ تیرے عفو بندہ نواز میں !
Top