Bayan-ul-Quran - Al-Kahf : 42
وَ اُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلٰى مَاۤ اَنْفَقَ فِیْهَا وَ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا
وَاُحِيْطَ : اور گھیر لیا گیا بِثَمَرِهٖ : اس کے پھل فَاَصْبَحَ : پس وہ رہ گیا يُقَلِّبُ : وہ ملنے لگا كَفَّيْهِ : اپنے ہاتھ عَلٰي : پر مَآ اَنْفَقَ : جو اس نے خرچ کیا فِيْهَا : اس میں وَھِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گرا ہوا عَلٰي : پر عُرُوْشِهَا : اپنی چھتریاں وَيَقُوْلُ : اور وہ کہنے لگا يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش لَمْ اُشْرِكْ : میں شریک نہ کرتا بِرَبِّيْٓ : اپنے رب کے ساتھ اَحَدًا : کسی کو
اور اس کا سارا ثمر سمیٹ لیا گیا تو وہ ہاتھ ملتا رہ گیا اس پر جو کچھ اس نے اس میں خرچ کیا تھا اور وہ (باغ) گرا پڑا تھا اپنی چھتریوں پر اور وہ کہہ رہا تھا ہائے میری شامت کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا
آیت 42 وَاُحِيْطَ بِثَمَرِهٖ اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نعمتیں دی گئی تھیں وہ سب اس سے سلب کرلی گئیں۔ باغ بھی اجڑ گیا اور اولاد بھی چھن گئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرا شخص اللہ کا خاص مقرب بندہ تھا۔ مال دار شخص نے اسے اس کی ناداری کا طعنہ دیا تھا : اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا کہ مال و دولت میں بھی مجھے تم پر فوقیت حاصل ہے اور نفری میں بھی میں تم سے بڑھ کر ہوں۔ اس طعنے سے اللہ کے اس نیک بندے کا دل دکھا ہوگا جس کی سزا اسے فوری طور پر ملی اور اللہ نے اس سے سب کچھ چھین لیا۔ اس سلسلے میں ایک حدیث قدسی ہے : مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیاًّ فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ ”جو شخص میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرے تو میری طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے“۔ کسی شاعر نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے : تا دل صاحب دلے نالد بہ درد ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد ! یعنی کسی صاحب دل ولی اللہ کے دل کو جب ٹھیس لگتی ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوری قوم گرفت میں آجاتی ہے۔ فَاَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلٰي مَآ اَنْفَقَ فِيْهَا یقیناً ان باغوں کی منصوبہ بندی کرنے پودے لگانے اور ان کی نشو ونما کرنے میں اس نے زر کثیر خرچ کیا تھا مسلسل محنت کی تھی اور اپنا قیمتی وقت اس میں کھپایا تھا۔ اس کا یہ تمام سرمایہ آن کی آن میں نیست و نابود ہوگیا اور وہ اس کی بربادی پر کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکا۔ وَھِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا انگوروں کی بیلیں جن چھتریوں پر چڑھائی گئی تھیں وہ سب کی سب اوندھی پڑی تھیں۔ وَيَـقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا اس مال دار شخص کے مکالمے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے اختیار کو بھلا کر ظاہری اسباب اور مادی وسائل پر توکل کرلیا تھا اور یہی وہ شرک تھا جس کا خود اس نے یہاں اعتراف کیا ہے۔ آج کی مادہ پرستانہ ذہنیت کا مکمل نقشہ اس رکوع میں پیش کردیا گیا ہے۔ یہ شرک کی جدید قسم ہے جس کو پہچاننے اور جس سے محتاط رہنے کی آج ہمیں اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے میری کتاب ”حقیقت و اقسام شرک“ کا مطالعہ مفید رہے گا جس میں شرک اور اس کی اقسام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
Top