Al-Qurtubi - An-Noor : 45
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهِ : اپنی قوم کو اعْبُدُوا : اتم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاتَّقُوْهُ : اور اس سے ڈرو ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
اور خدا ہی نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا تو ان میں سے بعضے ایسے ہیں کہ پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واللہ خلق کل اضافت کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی قراء نے خلیق ماضی کا صیغہ پڑھا ہے دونوں قراءتوں میں معنی صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دو خبریں دیں ہیں۔ پس اس میں یہ کہنا مناسب نہیں کہ ایک قرات دوسری قرات سے اصح ہے۔ بعض علماء نے کہا : بعض علماء نے کہا : خلق مخصوص چیز کے لیے ہے اور خالق عموم پر بولا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الخالق الباری ( الحشر :24) اور خصوص میں فرمایا : الحمد للہ الذی خلق السموات والا ارض (الانعام :1) اسی طرح ھو الذی خلقکم من نفس واحدۃ (الاعراف : 189) پس اللہ خلق کل دابۃ من ماء ہونا ضروری ہے۔ الدابۃ حیوان میں سے جو سطح زمین پر چلتا ہے کہا جاتا ہے : دب یدب فھو داب۔ اس میں ھاء مبالغہ کے لیے ہے۔ یہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ من مائ۔ اس میں جن اور ملائکہ داخل نہیں کیونکہ ہم انہیں نہیں دیکھتے اور نہ یہ ثابت ہے کہ وہ پانی سے پیدا کئے گئے ہیں اور جن آگ سے پیدا کئے گئے ہیں “۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مفسرین نے کہا : من ماء سے مراد من نطفۃ یعنی نطفہ سے پیدا کیا ہے (1) کہ ہر انسان کی تخلیق میں پانی ہے جس طرح آدم کو پانی اور مٹی سے پیدا فرمایا اس بناء پر نبی کریم ﷺ نے اس شیخ سے فرمایا تھا جس نے غزوہ بدر میں پوچھا تھا : تم کس سے ہو ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : نحن من ماء ہم پانی سے ہیں۔ الحدیث۔ ایک قوم نے کہا : جن و فرشتوں کی استشنا نہیں ہے بلکہ ہر حیوان پانی سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے پیدا کی گئی ہے، ہوا پانی سے پیدا کی گئی ہے کیونکہ عالم کی سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ پانی تھا پھر اس سے ہر چیز بنائی۔ میں کہتا ہوں : اس کے صحت پر یہ قول دلالت کرتا ہے : فمنھم من یمشی علی بطنہ۔ پیٹ کے بل چلنا سانپوں اور مچھلیوں کے لیے ہ۔ اور اس طرح دوسرے کیڑوں کے لیے ہے اور دو ٹانگوں پر چلنا انسان اور پرندوں کے لیے ہے اور چار ٹانگوں کا چلنا حیوان کے لیے ہے۔ مصحف ابی میں ہے ومنھم من یمشی علی اکثر اس زیادتی کے ساتھ تمام حیوان شامل ہوگئے جیسے سرطان اور خشاش وغیرہ، لیکن ان الفاظ کو اجماع نے ثابت نہیں کیا۔ لیکن نقاش نے کہا : چار ٹانگوں پر چلنے والوں کا ذکر پر اکتفا کیا (2) اور اس سے زیادہ چلنے والوں کے ذکر سے استغنا کیا کیونکہ تمام حیوانوں کا اعتماد چار ٹانگوں پر ہوتا ہے یہ اس کے چلنے کا سہارا ہوتی ہیں اور بعض حیوانوں میں ٹانگوں کی کثرت اس کی خلقت میں زیادتی ہے وہ حیوان ان تمام ٹانگوں پر چلنے کا محتاج نہیں ہوتا۔ ابن عطیۃ نے کہا : ظاہر یہ ہے کہ یہ کثیر ٹانگیں اس کے چلنے میں حرکت کرتی ہیں (3) ۔ بعض نے کہا : کتاب میں چار سے زیادہ پر چلنے کی ممانعت نہیں ہے کیونکہ یہ نہیں فرمایا کہ چار سے زیادہ پر چلنا نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس میں اضمار ہے ومنھم من یمشی علی اکثر من اربع جیسا کہ حضرت ابی کے مصحف میں ہے، واللہ اعلم۔ دابۃ کا لفظ ذوی العقول مخاطب اور مکلف ہوتا ہے اسی وجہ سے فرمایا منھم اور فرمایا من یمشی۔ اور اس اختلاف کے ساتھ صانع کے ثبوت کی طرف اشارہ کیا۔ اگر تمام کا صانع مختار نہ ہوتا تو وہ مختلف نہ ہوتے بلکہ وہ ایک جنس سے ہوتے یہ اس قول کی طرح ہے۔ یسقی بمآء واحد، و نفضل بعضھا علی بعض فی الاکل، ان فی ذلک لایت (الرعد : 4) یخلق اللہ ما یشآ، ان اللہ علی کلی شیء قدیر۔ جو ارادہ کرتا ہے اس پر قادر ہے۔
Top