Bayan-ul-Quran - Al-Ankaboot : 9
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَنُدْخِلَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں داخل کریں گے فِي الصّٰلِحِيْنَ : نیک بندوں میں
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ہم انہیں لازماً داخل کریں گے صالحین میں
آیت 9 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّہُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ ” نیک اہل ایمان کو صالحین کے گروہ میں شامل کرنے کا یہ وعدہ دنیا کے لیے بھی ہے اور آخرت کے لیے بھی۔ اس مژدۂ جانفزا کے مفہوم کو بھی مکہ کے مذکورہ حالات کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے ‘ جہاں اہل ایمان اپنے پیاروں سے کٹ رہے تھے ‘ والدین اپنے جگر گوشوں کو چھوڑنے پر مجبور تھے ‘ اولاد والدین کی شفقت و محبت سے محروم ہو رہی تھی اور بھائی بھائیوں سے جدا ہو رہے تھے۔ جیسے سردار قریش عتبہ بن ربیعہ کے بڑے بیٹے حذیفہ رض ایمان لے آئے جبکہ چھوٹا بیٹا ولید کافر ہی رہا۔ عتبہ اور اس کا بیٹا ولید غزوۂ بدر میں سب سے پہلے مارے جانے والوں میں سے تھے۔ اگر انسانی سطح پر دیکھا جائے تو حضرت حذیفہ رض کے لیے یہ بہت کڑا امتحان تھا۔ بہرحال جو صحابہ رض اس آزمائش اور امتحان سے دو چار ہوئے انہوں نے غیر معمولی حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن آخر تو وہ انسان تھے ‘ اندر سے ان کے دل زخمی تھے اور ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کی ضرورت تھی۔ چناچہ آیت زیر نظر کو اس سیاق وسباق میں پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یوں ہوگا کہ اے میرے جاں نثار بندو ! اگر تم لوگ مجھ پر اور میرے رسول ﷺ پر ایمان لا کر اپنے والدین ‘ بھائی بہنوں اور عزیز رشتہ داروں سے کٹ چکے ہو تو رنجیدہ مت ہونا۔ دوسری طرف ہم نے تمہارے لیے نبی رحمت اور اہل ایمان کے گروہ کی صورت میں نئی محبتوں اور لازوال رفاقتوں کا بندوبست کردیا ہے۔ ہمارے ہاں تمہارے لیے ایک نئی برادری تشکیل پا رہی ہے جس کی بنیاد ایک مضبوط نظریے پر رکھی گئی ہے۔ اب تم لوگ اس نئی برادری کے رکن بن کر ہمارے برگزیدہ بندوں کے گروہ میں شامل ہوگئے ہو ‘ جہاں رحمۃٌ للعالمین ﷺ آپ لوگوں کو اپنے سینے سے لگانے کے لیے منتظر ہیں اور جہاں ابوبکر صدیق رض اپنے ساتھیوں سمیت تم لوگوں پر اپنی محبت و شفقت کے جذبات نچھاور کرنے کو بےقرار ہیں۔ اس حوالے سے نبی اکرم ﷺ کو بھی بار بار یاد دہانی کرائی جا رہی ہے سورۃ الحجر : 88 اور سورة الشعراء : 215 کہ مؤمنین کے لیے آپ ﷺ اپنے کندھوں کو جھکا کر رکھیے اور ان کے ساتھ محبت و رأفت کا معاملہ کیجیے۔ دوسری طرف صالحین کے گروہ میں شمولیت کی اس خوشخبری کا تعلق آخرت سے بھی ہے ‘ جس کا واضح تر اظہار سورة النساء کی اس آیت میں نظر آتا ہے : وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ”اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی تو ایسے لوگوں کو معیت حاصل ہوگی ان لوگوں کی جن پر اللہ کا انعام ہوا یعنی انبیاء کرام ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے !“
Top