Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے اپنے احکام واضح کر دے اور تمہیں ہدایت بخشے ان راستوں کی جو تم سے پہلے کے لوگوں کے تھے اور تم پر نظر عنایت فرمائے اور اللہ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے
ان تین آیات میں احکام شریعت کے ضمن میں فلسفہ و حکمت کا بیان ہو رہا ہے۔ احکام شریعت کو انسان اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ اسے جب حکم دیا جاتا ہے کہ یہ کرو اور یہ مت کرو تو آدمی کی طبیعت ناگواری محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے شریعت کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکا ہے۔ 1970 ء میں کرسمس کے موقع پر میں لندن میں تھا۔ وہاں میں نے ایک عیسائی دانشور کی تقریر سنی تھی ‘ جس نے کہا تھا کہ شریعت لعنت ہے۔ خواہ مخواہ ایک انسان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ حلال ہے ‘ یہ حرام ہے۔ جب وہ حرام سے رک نہیں سکتا تو اس کا دل میلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو خطاکار سمجھنے لگتا ہے اور مجرم ضمیر guilty conscience ہوجاتا ہے۔ اس احساس کے تحت وہ منفی نفسیات کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان کے نزدیک اس ساری خرابی کا سبب یہ ہے کہ آپ نے حرام اور حلال کا فلسفہ چھیڑا۔ اگر سب کام حلال سمجھ لیے جائیں تو کوئی حرام کام کرتے ہوئے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا۔ دنیا میں ایسے ایسے فلسفے بھی موجود ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک فلسفۂ احکام یہ ہے : آیت 26 یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَیَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں نیکوکار بھی تھے اور بدکار بھی۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم انبیاء و صلحاء اور نیکوکاروں کا راستہ اختیار کرو صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اور تم دوسرے راستوں سے بچ سکو۔
Top