Bayan-ul-Quran - Al-Maaida : 42
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرنے والے لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے اَكّٰلُوْنَ : بڑے کھانے والے لِلسُّحْتِ : حرام فَاِنْ : پس اگر جَآءُوْكَ : آپ کے پاس آئیں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کردیں آپ بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَوْ : یا اَعْرِضْ : منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے وَاِنْ : اور اگر تُعْرِضْ : آپ منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے فَلَنْ : تو ہرگز يَّضُرُّوْكَ : آپ کا نہ بگاڑ سکیں گے شَيْئًا : کچھ وَاِنْ : اور اگر حَكَمْتَ : آپ فیصلہ کریں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُقْسِطِيْنَ : انصاف کرنے والے
(یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال کھانیوالے ہیں۔ اگر یہ تمہارے پاس (کوئی مقدمہ فیصل کرانے کو) آئیں تو تم ان میں فیصلہ کردینا یا اعراض کرنا اگر تم ان سے اعراض کرو گے تو وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اگر فیصلہ کرنا چاہو تو انصاف کا فیصلہ کرنا کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
آیت نمبر 42 تفسیر :(سمعون للکذب الکون للسحت جاسوسی کرنے والے ہیں جھوٹ بولنے کے لیے اور بڑے تمام کھانے والے ہیں) ابن کثیر، ابو جعفر، اہل بصرہ اور کسائی نے ” للسحت “ کو حاء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی حضرات نے حاء کے سکون کے ساتھ۔ ” سحت “ کا اصل معنی ہلاکت اور سختی ہے اور یہاں مراد ” حرام “ ہے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد باری ہے ” فسحتکم بعذاب “ (پس تم کو عذاب سے ہلاک کردے گا) سمعون للکذب کا شان نزول یہ آیت یہود کے حکام کعب بن اشرف وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ لوگ کسی سے رشوت لے کر اس کے حق میں فیصلہ کردیتے تھے۔ حسن (رح) فرماتے ہیں کہ ان کے حاکم کے پاس جب کوئی رشت لاتا تو اپنی آستین میں چھپا کر لاتا اور چپکے سے حاکم کو دکھا دیتا اور اپنی ضرورت بیان کرتا جس کو وہ توجہ سے سنتا اور اس کے مدمقابل کی طرف توجہ نو کرتا اور جھوٹ سنتا اور رشوت کھاتا اور ان سے یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہ حرست اس وقت ہے جب اس لیے رشوت دے کہ وہ قاضی اس کے لیے باطل کو حق بنادے اور دوسرے کے حق کو باطل کردے لیکن اگر آدمی کو کسی قاضی یا حاکم سے ظلم کا خوف ہو اور اس ظلم کو دور کرنے کے لیے رشوت دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حسن (رح) کے قبول کے مطابق ” سحت “ سے فیصلہ کرنے میں رشوت لینا مراد ہے اور مقاتل، قتادہ اور ضحاک رحمہما اللہ کا بھی یہی قول ہے اور ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں ہر چیز میں رشوت لینا مراد ہے۔ ابن مسعود ؓ نے فرمایا جو شخص کسی کی سفارش کرے تاکہ اس سے ظلم کو دور کرے یا اس کا حق دلائے اور اس کے بدلے میں اس کو ہدیہ دیاجائے اور وہ سفارش کرنے والا قبول کرلے تو یہ ” سحت “ ہے تو ان کو عرض کیا گیا کہ اے اب عبدالرحمن ہم تو ” سحت “ صرف فیصلہ کرنے میں رشوت لینے کو سمجھتے تھے تو آپ ؓ نے فرمایا کہ فیصلہ کرنے کے لیے رشوت لینا تو کفر ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جو نہ فیصلہ کرے اللہ کے اتارے ہوئے حکم کے مطابق تو یہی لوگ کافر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی لعنت ہے رشوت دینے والے اور لینے والے پر اور ہر حرام کمائی ” سحت “ ہے۔ ( فان جائوک فاحکم بیتھم اواعرض عنھم وان تعرض عنھم فلن بضروک شیئا سو اگر آئیں وہ تیرے پاس تو آپ فیصلہ کردیں ان میں یا منہ پھیرلیں ان سے اور اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں گے تو وہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اختیار دیا ہے کہ اہل کتاب کے معاملات میں فیصلہ کریں یا نہ کریں۔ لیکن علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ اس زمانہ میں اگر ذمی لوگ اپنے مسائل لائیں تو حاکم کو فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں ؟ اکثر اہل علم فرماتے ہیں یہ حکم اب بھی ثابت ہے اور اس سورة مائدہ میں کوئی حکم منسوخ نہیں ہے اور مسلمانوں کے حکام کو اہل کتاب کے فیصلوں میں اختیار ہے اگر چاہیں تو فیصلہ کریں اور اگر چاہیں تو فیصلہ نہ کریں لیکن اگر فیصلہ کریں صرف شریعت اسلامیہ کے مطابق کرسکتے ہیں۔ یہی نخعی، شعبی، عطاء اور قتادہ رحمہما اللہ کا قول ہے اور ایک قوم نے کہا کہ مسلمان حاکم واجب ہے کہ ان کے درمیان فیصلہ کرے اور یہ آیت منسوخ ہے اس کی ناسخ اللہ تعالیٰ کا فرمان (وان احکم بینھم بما الزل اور آپ فیصلہ کیجئے ان کے درمیان اس کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے) یہی مجاہد اور عکرمہ رحمہما اللہ کا قول اور ابن عباس ؓ سے بھی یہی مروی ہے اور ابن عباس ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ سورة مائدہ کی صرف دو آیتیں منسوخ ہیں ایک ” لاتحلوا شعائر اللہ “ اس کو اللہ تعالیٰ کے فرمان ” اقتلوا المشرکین “ نے منسوخ کردیا ہے اور وسری آیت ” فان جاء وک فاحکم بینھم اواعرض عنھم “ ہے اس کو اللہ کے فرمان ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “ نے منسوخ کردیا ہے لیکن اگر ہمارے پاس مسلمان اور ذمی فیصلہ لائیں تو سب کا اتفاق ہے کہ فیصلہ کرنا واجب ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ اس لیے کہ مسلمان کے لیے ذمیوں کے فیصلہ کو مان لینا جائز نہیں (وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط اور اگر تو فیصلہ کرے تو فیصلہ کر ان میں انصاف کے ساتھ۔ ان اللہ یحب المقسطین بیشک اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے انصاف کرنے والوں کو) نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ انصاف کرنے والے اللہ کے پاس ن ور کے منبروں پر ہوں گے۔ ( مسلم کتاب الامارۃ)
Top