Bayan-ul-Quran - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ : اور رزق دے گا اس کو مِنْ حَيْثُ لَا : جہاں سے، نہ يَحْتَسِبُ : وہ گمان کرتا ہوگا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ : اور جو بھروسہ کرے گا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَهُوَ حَسْبُهٗ : تو وہ کافی ہے اس کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ بَالِغُ اَمْرِهٖ : پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ : تحقیق بنادیا اللہ نے لِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کے لیے قَدْرًا : ایک اندازہ
اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ تو یقینا اپنا کام پورا کر کے ہی رہتا ہے۔ اللہ نے ہرچیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔
آیت 3{ وَّیَرْزُقْـہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ } ”اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔“ اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ رزق یعنی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا ہے۔ اس لیے جب کوئی اللہ کا بندہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فرمانِ الٰہی : { اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ } الانعام کو اپنا نصب العین بنانا چاہتا ہے تو اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ اندیشہ بنتا ہے کہ ضروریاتِ زندگی کیسے پوری ہوں گی ؟ چناچہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اہل ِ ایمان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اے میرے بندو ! تمہارا رازق تو میں ہوں اور تمہیں رزق دینے کے لیے میں وسائل و اسباب کا محتاج نہیں ہوں۔ تم لوگ ایمان و یقین کے ساتھ مجھ پر اعتماد کرکے دیکھو ‘ میں تمہیں وہاں سے رزق دوں گا جہاں سے تمہیں گمان بھی نہیں ہوگا۔ { وَمَنْ یَّـتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ } ”اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے۔“ جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اپنے معاملات اس کے سپرد کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات و حاجات کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ اسی بات کو کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے : ؎ کار ساز ما بہ فکر ِکارِ ما فکر ِما در کار ما آزار ما ! کہ ہمارا کارساز تو اللہ ہے ‘ اور وہ ہمارے کاموں کی فکر میں مصروف ہے ‘ اس لیے ہم اپنے کاموں کی فکر کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں ! ظاہر ہے اگر ہم خود اپنے کاموں کی فکر کریں گے تو غلطیاں بھی کریں گے ‘ نقصان بھی اٹھائیں گے اور ٹھوکریں بھی کھائیں گے ‘ تو کیوں نہ ہم اپنے کام اسے سونپ کر خود کو اس کے کام اقامت دین کی جدوجہد میں لگا دیں۔ اللہ تو ایسا قدردان ہے کہ اگر اس کا کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا ہے تو وہ بدلے میں اس کا مددگار بن جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہٖ 1 کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے میں اپنا وقت صرف کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورتیں پوری کرنے میں لگ جاتا ہے۔ تو اگر اللہ کا کوئی بندہ اپنی ذاتی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر خود کو براہ راست اللہ تعالیٰ کے کام میں لگا دے گا تو کیا اللہ اس کے معاملات کو خراب ہونے کے لیے چھوڑ دے گا ؟ ہرگز نہیں ! ایسا تو دنیا میں ہم انسانوں کے ہاں بھی نہیں ہوتا ‘ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس انسان میں تھوڑی سی بھی شرافت اور مروت ہوتی ہے وہ دوسرے انسان کی وفاداری کا بدلہ ضرور چکاتا ہے۔ چناچہ جب ایک انسان بھی دوسرے انسان کی وفاشعاری کا صلہ دینا ضروری سمجھتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک وفاشعار اور متوکل ّ بندے کی کس کس انداز سے دست گیری فرمائے گا۔ یاد رکھیں ! توکل کا تعلق بندے کے ایمان سے ہے۔ جس قدر گہرا اور پختہ کسی کا ایمان ہوگا ‘ اسی قدرمضبوط اس کا توکل ہوگا۔ آج ہمارے لیے اللہ تعالیٰ پر بھرپور توکل کرنا اس لیے مشکل ہے کہ ہمارا ایمان کمزور ہے۔ تو آیئے ! ہم اپنا ایمان مضبوط کر کے اللہ پر توکل کریں۔ اپنے معاملات کی منصوبہ بندیوں کا دردسر مول لینے کے بجائے تفویض الامر الی اللّٰہ کی حکمت عملی اپنائیں۔ اپنے معاملات اس کے سپرد کردیں اور اس کے کام کو اپناکام سمجھ کر اس کے لیے اپنا تن من دھن کھپا دیں !۔۔۔۔ - -{ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ بِصِیْرٌج بِالْعِبَادِ۔ } المومن { اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ } ”اللہ تو یقینا اپنا کام پورا کر کے ہی رہتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے دین کو غالب کرنا ہی ہے ‘ لیکن اس عظیم الشان کام کے لیے جدوجہد کی سعادت وہ اپنے بندوں کے نام کرنا چاہتا ہے۔ اب اس کے لیے ہر انسان کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس منافع بخش ”کاروبار“ میں شریک ہونا چاہتا ہے یا اپنی محرومی پر قناعت کر کے بیٹھے رہنے کو پسند کرتا ہے۔ جیسے ابوبکر ‘ عمر ‘ عثمان ‘ علی ‘ عبدالرحمن بن عوف اور ان کے ساتھی j اس جدوجہد میں شریک ہو کر ہمیشہ کے لیے سرخروہو گئے ‘ جبکہ ابوجہل ‘ ابولہب اور ان کے ہم نوائوں نے اس سے بےاعتنائی دکھائی اور ابدی محرومیاں اپنے نام کرالیں۔ آج ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قیام قیامت سے پہلے پہلے اس کرئہ ارضی پر دین اسلام کو غالب تو ہونا ہے اور یقینا ہم جیسے انسانوں کی کوششوں اور قربانیوں سے ہی ہونا ہے ‘ تو کیا ہم اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار ہیں یا محرومین کی صفوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں ؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارا تن من دھن غرض سب کچھ اس جدوجہد میں کھپ جائے اور ہماری ہڈیاں چورا بن کر بھی اسلام کی تعمیر نو میں کام آجائیں تو یہ ہماری بہت بڑی کامیابی اور خوش قسمتی ہوگی۔ { قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا۔ } ”اللہ نے ہرچیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔“ یہ بہت خوبصورت اور سبق آموز جملہ ہے۔ غلبہ دین کی جدوجہد کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا مفہوم واضح تر ہوجاتا ہے ‘ کہ اے راہ حق کے مسافرو ! تمہاری محنت اور جدوجہد کس کس گھاٹی سے ہوتی ہوئی کب ‘ کہاں پہنچے گی اور اللہ کی مدد کب تمہارے شامل حال ہوگی ‘ اللہ کے ہاں یہ سب کچھ طے ہے۔ یقینا اس راستے میں کامیابی کا دارومدار اللہ کی مدد پر ہے ‘ لیکن اللہ کی مدد تو تبھی آئے گی جب تم خود کو اس کا اہل ثابت کرو گے۔ اس کے لیے تمہیں منہج نبوی ﷺ کو اپناتے ہوئے ہر اس راستے سے گزرنا ہوگا جس راستے سے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گزرے اور ہر وہ سختی برداشت کرنا ہوگی جو آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر برداشت کی۔ جب ان تمام امتحانات سے سرخرو ہو کر آگے بڑھو گے تو خود کو ایک ایسے میدان میں کھڑا پائو گے جس کے نشیب و فراز سرزمین ِبدر کے نشیب و فراز سے ملتے جلتے ہوں گے۔ اس میدان کی مخالف سمت سے اسلحہ کی جھنکار اور لَا غَالِبَ لَـکُمُ الْیَوْمَ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہوگی ‘ جبکہ اس کی فضا ملکوتی تقدس کے احساس سے معمور ہوگی۔ جب تم یہ سب کچھ دیکھو اور محسوس کرو تو جان لینا کہ تمہاری جدوجہد کا فیصلہ کن موڑ آپہنچا ہے۔ بس اس موقع پر تم سجدے میں گرجانا اور رو رو کر دعا کرنا کہ اے اللہ ! ہم نے تیرے داعی کی دعوت پر لبیک کہا ! ہم تیرے پیغام کو لے کر قریہ قریہ گھومے ! گلی گلی پھرے ! ایک عرصہ تک ہم نے اپنی صبحیں اور اپنی شامیں اسی فکر میں بتادیں ! ہم نے اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پھلانگنے اور ہر مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کی کوشش کی ! اے اللہ ! ہم نے یہ سب کچھ تیری رضا کے لیے کیا ‘ اور تیری ہی توفیق اور مشیت سے کیا۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں معلوم ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہم کوشش ‘ محنت ‘ ایثار اور قربانی کا حق ادا نہیں کرسکے ! لیکن ہم سے جو ہوسکا وہ ہم نے پوری دیانت داری اور اخلاص سے کیا۔ پروردگار ! ہم نے اپنی سالہاسال کی محنت کو آج اس میدان میں تیرے حضور پیش کردیا ہے ! اے گناہوں کو معاف کرنے والے ! تو ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہماری کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہماری اس حقیر سی کمائی کو قبول فرما لے …! اگر یہ دعائیں مذکورہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد مانگی جائیں گی تو ضرور قبول ہوں گی ‘ تب اللہ کی مدد بھی آئے گی ‘ فرشتے بھی اتریں گے اور دنیوی کامیابی بھی نصیب ہوگی۔ لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کاروبار بھی چلتا رہے ‘ معیارِ زندگی بھی برقرار رہے ‘ معمولاتِ زندگی میں بھی خلل نہ پڑے ‘ مال و جان بھی محفوظ رہے ‘ بچوں کے کیریئرز بھی بن جائیں اور ہمارے ہی ہاتھوں سے اقامت دین کا ”کارنامہ“ بھی انجام پا جائے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔ ایسے لوگ کسی جماعت کے اراکین کی فہرست میں نام لکھوا کر سمجھتے ہیں کہ بس انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اس کے بعد وہ انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی ‘ دین غالب ہوجائے گا اور اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہی نہیں کہ کس نے کیا قربانی دی ہے ‘ کس نے کتنا وقت لگایا ہے ‘ کس نے کس مرحلے پر کس مہم میں کتنا حصہ ڈالا ہے۔ نہیں ! یہ کوئی اندھیر نگری نہیں ! اللہ کے ہاں ہرچیز اور ہر انسان کے ہر عمل کا حساب موجود ہے ! قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا اس نے ہرچیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے !
Top