Dure-Mansoor - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور کسی چیز کے بارے میں آپ ہرگز یوں نہ کہیں کہ میں اسے کل کروں گا
قریش کے سوالات اور جوابات : 1:۔ ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ قریش اکٹھے ہوئے اور کہا اے محمد ﷺ تو نے ہمارے دین سے اور اپنے آباء و اجداد کے دین سے انحراف کیا ہے یہ دین تو کہاں سے لے کر آیا ہے جو تو لے کر آیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ دین رحمن کی طرف سے ہے جو میں لے کر آیا ہوں قریش نے کہا ہم یمامہ والے رحمان کے علاوہ کسی رحمان کو نہیں جانتے وہ اس سے مسیلمہ کذاب کو مراد لیتے تھے پھر قریش نے یہود کو لکھا کہ ہمارے اندر ایک آدمی ظاہر ہوا ہے جو گمان کرتا ہے کہ میں نبی ہوں اور ہمارے دین اور ہمارے آباء و اجداد کے دین کو چھوڑ دیا ہے حالانکہ وہ امین ہے جو خیانت نہیں کرتا وعدہ پورا کرتا ہے دھوکہ نہیں دیتا ہے سچ بولنے والا ہے جھوٹ نہیں بولتا اور وہ حسب والا اور صاحب ثروت ہے اپنی قوم (کے لحاظ) سے ہماری طرف کتابوں میں ہے اس کا وقت اور اس کا زمانہ تو یہی ہے جس میں اس کا ظہور ہونا ہے انہوں نے قریش کی طرف لکھا ان سے اصحاب کہف، ذوالقرنین اور روح کے بارے میں سوال کرو اگر وہ تمہارے پاس رحمان کی طرف سے آیا ہے (تو ان سوالوں کے جواب دے گا) اور رحمان وہ اللہ عزوجل ہے اور اگر وہ رحمان یمامہ کی طرف سے ہوگا تو جواب نہیں دے سکے گا جب یہ خط آیا قریش کے پاس تو اندر اندر بہت خو ش ہوئے اور انہوں نے کہا اے ﷺ تو نے ہمارے اور اپنے آباؤ و اجداد کے دین کو چھوڑ دیا ہے تو پھر ہم کو اصحاب کہف ذوالقرنین اور روح کے بارے میں بتا آپ نے فرمایا میرے پاس کل آبانا (میں جواب دوں گا) اور انشاء اللہ نہیں کہا جبرائیل (علیہ السلام) پندرہ دنوں کے بعد تشریف لائے تو آپ نے فرمایا قریش نے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کیا میرے پاس ان کے بارے میں علم نہ تھا کہ میں ان کو جواب دیتا یہاں تک کہ یہ حالت مجھ پر بہت بھاری گذری جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو ؟ اور آپ کے گھر میں کتے کا ایک بچہ تھا (جو گھس آیا تھا اور آپ کو اس کا علم نہ ہوا) تو یہ آیات نازل ہوئیں (آیت) ” ولا تقولن لشائء انی فاعل ذلک غدا (23) الا ان یشآء اللہ واذکر ربک اذا نسیت وقل عسی ان یھدین ربی لاقرب من ھذا رشدا “ یعنی اس علم میں سے کہ جس کے بارے میں انہوں نے مجھ سے سوال کیا مجھے توقع ہے کہ کل آنے سے اس کا علم میرے پاس آئے گا پھر اصحاب کہف کا ذکر نازل ہوا اور پھر نازل ہوا (آیت) ” ویسئلونک عن الروح “ یعنی روح کے بارے میں۔ 2:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے کسی پر قسم کھالی تھی مگر اس کو چالیس راتیں گذر گئیں (وحی نہیں آئی) اور اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ولا تقولن لشائء انی فاعل ذلک غدا (23) الا ان یشآء اللہ “ اور نبی کریم ﷺ نے چالیس راتوں کے بعد ” ان یشآء اللہ “ پڑھا۔ 3:۔ سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم، اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ استثناء میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے اگرچہ سال کے بعد ہو پھر استثناء میں کوئی حرچ نہیں جانتے تھے اگرچہ سال کے بعد ہو پھر یہ آیت بطور دلیل پڑھتے تھے (آیت) ” واذکر ربک اذا نسیت “ یعنی جب تجھ کو یاد آجائے۔ ہر کام کے وعدہ پر انشاء اللہ کہنا : 4:۔ ابن منذر، ابن ابی حاتم اور طبرانی ابن عباس ؓ اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ تو کسی چیز کے بارے میں یوں کہے کہ میں اس کو کروں گا اور انشاء اللہ کہنا بھول گیا کہہ دو جب تجھ کو یاد آجائے۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذکر ربک اذا نسیت “ سے مراد ہے انشاء اللہ کہہ دو جب تجھ کو یاد آجائے۔ 6:۔ ابن منذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ وہ آدمی جو قسم اٹھائے اور انشاء اللہ کہنا بھول جائے فرمایا کہ انشاء اللہ کہہ سکتا ہے ایک ماہ تک اور یہ آیت تلاوت کی (آیت) ” واذکر ربک اذا نسیت “۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے عمروبن دینار کے طریق سے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے کسی کام پر قسم کھائی تو اس کے لئے انشاء اللہ کہنا اونٹنی کے ( دودھ) دوہنے کی مقدار تک جائز ہے اور طاوس فرماتے تھے انشاء اللہ کہہ سکتا جب تک اس مجلس میں موجود ہے۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ استثناء کرسکتا ہے جب تک وہ اسی بات میں لگا ہوا ہے۔ 9:۔ ابن ابی حاتم طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذکر ربک اذا نسیت “ سے مراد ہے کہ جب تو استثناء کو بھول جائے تو یاد آنے کے بعد استثناء کرو پھر فرمایا کہ یہ خاص (حکم) رسول اللہ ﷺ کے لئے ہے اور ہم میں سے کسی شخص کو متصل استثناء کرنا جائز ہے (بعد میں جائز نہیں) 10:۔ سعید بن منصورنے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جو استثناء متصل ہو اس کی وجہ سے قسم توڑنے والا حانث نہ ہوگا اور جو استثناء غیر متصل ہو اس کی وجہ سے قسم توڑنے والا حانث ہوگا۔ 11:۔ بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے قسم اٹھائی اور کہا انشاء اللہ اگر چاہے تو قسم پر قائم رہے اور اگر چاہے تو رجوع کرے وہ حانث نہ ہوگا۔ 12:۔ احمد بخاری، مسلم نسائی اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سلیمان بن داود (علیہ السلام) نے فرمایا میں آج رات نوے بیویوں پرچکر لگاوں گا ان میں ہر ایک بیوی سے ایک بچہ پیدا ہوگا جو اللہ کے راستے میں قتال کرے گا بادشاہ نے ان سے کہا آپ انشاء اللہ کہہ لیجئے انہوں نے نہ کہا انہوں نے سب بیویوں کے پاس چکر لگایا (یعنی جماع کیا) تو ان میں ایک بیوی کے آدھا انسان پیدا ہوا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ انشاء اللہ فرما دیتے وہ قسم نہ ٹوٹتی اور وہ اپنی ضرورت کو بھی پالیتے۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ ابن منذر ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب میں عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذکر ربک اذا نسیت “ یعنی جب تو غصہ ہوجائے تو اللہ کا ذکر کر۔ 14:۔ بیہقی نے الاسماء والصفات میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذکر ربک اذا نسیت “ یعنی جب تم انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہو۔ 15:۔ بیہقی نے معتمر بن سلیمان (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابو الحارث کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اہل کوفہ کے ایک آدمی نے روایت کیا کہ وہ قرآن کی اس آیت کو پڑھتے تو کہتے کہ جب انسان انشاء اللہ کہنا بھول جائے تو اس کی توبہ یہ ہے کہ وہ یوں کہے (آیت) ” عسی ان یھدین ربی لاقرب من ھذا رشدا “
Top