Dure-Mansoor - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
اور آپ کے رب کی کتاب جو آپ کی طرف وحی کی گئی اس کی تلاوت کیجئے اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور ہرگز آپ اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہ پائیں گے
1:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ملتحدا “ سے مراد ہے پناہ کی جگہ۔ 2:۔ ابن انباری نے وقف میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے نافع بن ازرق نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ولن تجد من دونہ ملتحدا “ کے بارے میں پوچھا کہ ” ملتحدا “ سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے زمین میں داخل ہونے کی جگہ خصیب ضمری نے اس معنی میں یہ لفظ استعمال کیا۔ یالھف نفسی ولھف غیر محدثہ علی وما عن قضاء اللہ ملتحد ترجمہ : ہائے افسوس ! میری جان پر اور مجھ پر افسوس کچھ نہیں ہے قضاء الہی سے بچنے کے لئے زمین میں کوئی جگہ نہیں۔ 3:۔ ابن مردویہ، ابو نعیم نے حلیۃ میں اور بیہقی نے شعب میں سلمان ؓ سے روایت کیا کہ مولفۃ القلوب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے (یعنی) عیینہ بن بدر اوراقرع بن حابس اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ مجلس کے آگلے حصہ میں بیٹھتے اور ان (غریب لوگوں) سے آپ علیحدہ ہوجاتے کہ ان کے کپڑے بدبودار ہیں تو ہم آپ کے پاس بیٹھتے وہ اس سے سلمان ابوذر اور مسلمانوں کے فقیر لوگ مراد لیتے تھے اور وہ لوگ اون کے جبے پہنے ہوئے تھے تو ہم آپ کے پاس بیٹھتے یا ہم آپ سے باتیں کرتے اور ہم آپ سے (کچھ نصیحت) حاصل کرتے اور ہم آپ سے (کچھ نصیحت) حاصل کرتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت ) ’ ’ واتل ما اوحی الیک من کتاب ربک “ سے لے کر ” انا اعتدنا للظلمین نارا “ تک یعنی اللہ نے ان کو آگ کی دھمکی دی۔ 4:۔ ابوالشیخ نے عظمہ میں سلمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کو تلاش میں نکلے تو ان کو مسجد کے آخر میں پایا جو اللہ کا ذکر کررہے تھے پھر فرمایا سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے موت نہیں دی یہاں تک کہ مجھے حکم فرمایا کہ میں اپنے آپ کو روکے رکھوں ان لوگوں کے ساتھ اپنی امت میں سے (پھر فرمایا) تمہارے ساتھ زندگی ہے اور تمہارے ساتھ مرنا ہے۔ غریب و امیر اللہ تعالیٰ کی نظر میں برابر ہے : 5:۔ عبد بن حمید نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت میرے بارے میں اور اس آدمی کے بارے میں نازل ہوئی جو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور میرے پاس ایک ٹوکری کھجور کے پتوں والی تھی اس آدمی نے اپنی کہنی میرے سینے کے اوپر رکھ کر کہا ایک طرف کو ہٹ جا ! یہاں تک کہ مجھے ایک چٹائی پر ڈال دیا پھر کہا اے محمد ﷺ ہمیں آپ کی خدمت میں آنے سے یہ اور اس جیسے دوسرے فقراء مانع ہیں آپ کو علم ہے کہ میں ایک سردار اور رئیس آدمی ہوں اگر آپ ان (غریب مسلمانوں کو) اپنی مجلس سے اٹھا دیں تو پھر ہم آپ کے پاس آئیں گے جب ہم چلے جائیں تو پھر ان کو اجازت دے دیا کریں اگر آپ کی مرضی ہو جب وہ چلا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم “ سے ” وکان امرہ فرطا “ تک۔ 6:۔ ابن جریر، طبرانی اور ابن مردویہ نے عبدالرحمن بن سہل بن حنیف ؓ سے روایت کیا کہ یہ (آیت) واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم بالغدوۃ والعشی “ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی جب آپ اپنے گھر میں تھے آپ ان لوگوں کو ڈھونڈنے کے لئے نکلے تو ایسی قوم کو پایا جو اللہ کا ذکر کررہے تھے ان میں بکھرے بالوں والے خشک کھالوں والے اور ایک کپڑے والے تھے جب آپ نے ان کو دیکھا تو ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ایسے لوگ بنائے میری امت میں کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں ان کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھوں۔ 7:۔ بزار نے ابوہریرہ ؓ وابوسعید خدری ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایسے آدمی کے پاس تشریف لائے جو سورة حجر اور سورة کہف پڑھ رہا تھا وہ (آپ کو دیکھ کر) خاموش ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ وہ مجلس ہے کہ جس میں مجھے حکم دیا گیا کہ میں اپنے آپ کو ان کے ساتھ روکے رکھوں۔ 8:۔ ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے عمر بن ذر (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب میں سے ایک جماعت کے پاس تشریف لائے ان میں عبداللہ بن رواحہ بھی تھے یہ سب اللہ کا ذکر کر رہے تھے جب عبداللہ ؓ نے آپ کو دیکھا تو خاموش ہوگئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا اپنے ساتھیوں کو ذکر کراؤ عرض کیا یا رسول اللہ آپ ذکر کرانے کے زیادہ حق دار ہیں آپ نے فرمایا تم ایسی جماعت ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں اپنے کو ان کے ساتھ روکے رکھوں پھر یہ (آیت) واصبر نفسک “ (الآیۃ) پڑھی۔ 9:۔ طبرانی نے صغیر میں اور ابن مردویہ نے عمر بن ذر کے طریق سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا مجھ سے بیان کیا مجاہد نے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ عبداللہ بن رواحہ کے پاس سے گذرے اور وہ اپنے ساتھیوں کو ذکر کروا رہے تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم ایسی جماعت ہو کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ میں اپنی جان کو تمہارے ساتھ روکے رکھوں پھر یہ (آیت) واصبر نفسک “ پڑھی (پھر) فرمایا تمہاری جتنی تعداد ذاکرین کی ہوتی ہے تو اتنی تعداد میں تمہارے ساتھ فرشتوں کی ہوتی ہے اگر وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں تو وہ ( فرشتے) بھی اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اگر وہ اللہ کی حمد بیان کریں تو وہ بھی حمد بیان کرتے ہیں اگر وہ اس کی بڑائی بیان تو یہ بھی بڑائی بیان کرتے ہیں پھر وہ فرشتے اپنے رب کی اوپر چڑھ جاتے ہیں اور اللہ کے سب کچھ جاننے کے باوجود وہ فرشتے کہتے ہیں اے ہمارے رب بلاشبہ تیرے بندے تیری تسبیح بیان کرتے ہیں تو ہم بھی تسبیح بیان کرتے ہیں اور جب وہ تیری حمد بیان کرتے ہیں تو ہم بھی حمد بیان کرتے ہیں تو ہمارے رب تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے فرشتوں تم گواہ ہوجاؤ کہ میں نے ان سب کو بخش دیا فرشتے عرض کرتے ہیں ان میں فلاں گنہگار بھی تھا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ ایسی قوم ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا بد بخت نہیں ہوتا۔ 10:۔ احمد نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک ذکر کرنے والے کے پاس تشریف لے گئے جو ذکر کررہا تھا (آپ کو دیکھ کر) وہ ٹھہر گیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ذکر کر کیونکہ صبح سے لے کر سورج نکلنے تک ذکر الہی کے لئے بیٹھنا میرے نزدیک چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ 11:۔ ابویعلی ابن مردویہ بیہقی نے دلائل میں اور ابو نصر سنجزی نے الابانہ میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہم ضعیف ونادار لوگ بیٹھے تھے ایک آدمی ہم پر قرآن پڑھ رہا تھا اور ہمارے لئے دعا کر رہا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں میری امت میں ایسے لوگ پیدا فرمائے کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں ان کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھوں پھر فرمایا غریب مسلمانوں کو خوشخبری دے دو پورے پورے نور کی قیامت کے دن کہ وہ جنت میں مالداروں سے آدھا دن پہلے داخل ہوں گے جو پانچ سو سال کی مقدار ہے یہ لوگ جنت میں نعمتوں میں رہیں گے اور مالدار لوگ حساب دے رہے ہوں گے۔ ذاکرین پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول : 12:۔ احمد نے زہد میں ثابت (رح) سے روایت کیا کہ سلمان فارسی ؓ ایسی جماعت میں سے تھے جو اللہ کا ذکر کرتے تھے نبی کریم ﷺ گذرے تو وہ خاموش ہوگئے آپ نے پوچھا کیا کہہ رہے تھے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ تعالیٰ کو یاد کررہے تھے آپ نے فرمایا میں نے دیکھا کہ رحمت الہی تم پر اتر رہی ہے تو میں نے پسند کیا میں اس میں تمہارے ساتھ شریک ہوجاوں پھر فرمایا سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں کہ جس نے میری امت میں سے ایسے لوگ بنائے کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں ان کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھوں۔ 13:۔ احمد نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ اکٹھے ہو کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور ان کا ارادہ صرف اللہ کی ذات کا ہوتا ہے (کہ اللہ راضی ہوجائیں) تو ایک آواز دینے والا آسمان سے آواز دیتا ہے کہ تم لوگ بخشے بخشائے کھڑے ہوجاؤ تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا گیا۔ 14:۔ ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ مجھے عبداللہ بن عمر ؓ اس آیت (آیت) واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو پانچوں فرض نمازوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے اسی طرح نقل کیا۔ 15:۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے عمر وبن شعیب (رح) سے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت (آیت) واصبر نفسک “ صبح اور عصر کی نماز کے بارے میں نازل ہوئی۔ 16:۔ ابن ابی حاتم نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عدی بن الخیار (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں۔ 17:۔ ابن مردویہ نے جو بیر کے طریق سے ضحاک سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ (آیت) ” ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا “ امیہ بن خلف کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ اس وجہ سے کہ اس نے نبی کریم ﷺ سے ایسا مطالبہ کیا تھا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا کہ غریب مسلمانوں کو اپنی مجلس سے ہٹا دیں اور اہل مکہ سرداروں کو اپنا ہم نشین بنائیں تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا “ کہ ہم نے اس کے دل پر مہر لگا دی یعنی توحید قبول کرنے سے ہم نے اس دل پر مہر لگا دی (آیت) ” واتبع ھوہ “ یعنی وہ شرک میں لگ گیا (آیت) ” وکان امرہ فرطا “ یعنی حد سے گذرا ہوا اللہ تعالیٰ کے حکم میں اور اللہ کے ساتھ جہالت میں۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے ابن بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ عیینہ بن حصن نبی کریم ﷺ کے پاس آیا گرم دن میں اور آپ کے پاس سلمان ؓ بیٹھے ہوئے تھا اون کا جبہ پہنے ہوئے جس سے پسینہ کی بدبوآرہی تھی عیینہ نے اے محمد جب ہم آپ کے پاس آئیں تو اس کو اور اس جیسے فقراء کو اپنے پاس سے اٹھادیا کریں تاکہ یہ ہم کو تکلیف نہ دیں جب ہم چلیں جائیں تو تم ان کے ساتھ اپنا معاملہ بہتر جانتے ہو تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولا تطع من اغفلنا قلبہ “ (الآیۃ ) ۔ ذکر اللہ سے غافل لوگوں کی صبحت سے اجتناب کرنا : 19:۔ ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو بیان کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کو امیہ بن خلف کی پیروی سے روکا گیا کیونکہ امیہ بھی ہر بات کو بھولنے و الا تھا جو اس سے کہی جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” ولا تطع من اغفلنا قلبہ “ (الآیۃ) پھر آپ اپنے اصحاب کی طرف لوٹ آئے اور امیہ کا راستہ چھوڑ دیا اور سلمان ؓ کو پایا کہ وہ لوگوں کو ذکر کرا رہے ہیں آپ نے فرمایا سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں کہ جب میں دنیا سے جدا نہیں ہوا اور اس نے مجھے اپنی امت میں سے ایسے لوگ دکھائے کہ مجھے حکم دیا کہ میں اپنے آپ کو ان کے ساتھ روکے رکھوں۔ 20:۔ ابن ابی حاتم نے مغیرہ کے طریق سے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم بالغدوۃ والعشی “ سے ذکر والے لوگ مراد ہیں۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے منصور کے طریق سے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) واصبر نفسک “ سے مراد ہے کہ تو ان کو ذکر سے دور نہ کرو۔ 22:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابو جعفر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ اپنے اصحاب کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھیں اور ان کو قرآن سکھائیں۔ 23:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” مع الذین یدعون ربہم “ سے مراد ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں اور (آیت) ” ولا تعد عینک عنہم “ یعنی آپ کی نگاہیں ان کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نہ اٹھیں۔ 24:۔ ابن ابی حاتم نے ابو ہاشم (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو حلال اور حرام میں تمیز کرتے ہیں۔ 25:۔ حکیم ترمذی نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم بالغدوۃ والعشی “ سے مراد ہے حلال و حرام میں فرق کرنا۔ 26:۔ بیہقی نے شعب میں ابراہیم و مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم بالغدوۃ والعشی “ سے مراد ہیں پانچ وقت کی نماز ادا کرنے والے۔ 27:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ یہ (آیت) ” ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا “ عیینہ بن حصن کے بارے میں نازل ہوئی اس نے نبی کریم ﷺ سے کہا مجھے سلمان فارسی کی بدبوتکلیف دیتی ہے ہمارے لئے اپنے ساتھ ایک (علیحدہ) مجلس بنا دیجئے اپنے پاس سے کہ ہم ان کے ساتھ جمع نہ ہوں گے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ 28:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ماجد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وکان امرہ فرطا “ سے مراد ہے ضیاعا یعنی ضائع ہونے والا۔ 29:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقل الحق من ربکم “ میں الحق سے قرآن مراد ہے۔ 30:۔ حنیش نے استقامہ میں ابن جریر ابن منذر ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) فمن شآء فلیومن ومن شآء فلیکفر “ سے مراد ہے کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ ایمان کو چاہتے ہیں وہ ایمان لاتا ہے اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ کفر کو چاہتے ہیں تو وہ کفر کو اختیار کرلیتا ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے تائید ہوتی ہے (آیت) ” وما تشآءون الا ان یشاء اللہ رب العلمین “ التکویر آیت 29 (کہ تم نہیں چاہتے مگر جو رب العالمین چاہتا ہے) 31:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) فمن شآء فلیومن ومن شآء فلیکفر “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ دھمکی دینا اور ڈرانا ہے۔ 32:۔ ابن ابی حاتم نے رباح بن زید (رح) سے روایت کیا کہ میں عمر بن حبیب (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) فمن شآء فلیومن ومن شآء فلیکفر “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ داود بن رافع (رح) نے مجھ سے بیان فرمایا کہ مجاہد (رح) فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عاجز کرنے والے نہیں ہیں یہ وعید ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ 33:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” احاط بہم سرادقھا “ سے مراد آگ کی دیواریں ہیں۔ 34:۔ احمد، ترمذی، ابن ابی الدنیا نے صفۃ النار میں ابن جریر، ابویعلی، ابن ابی حاتم، ابن حاتم، ابن حبان، ابو الشیخ حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سرادق النار یعنی دوزخ کی چاردیواریں ہیں ہر دیوار کی موٹائی چالیس سال کی مسافت پر ہے۔ 35:۔ احمد، بخاری نے تاریخ میں ابن ابی الدنیا، ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے بعث میں (حاکم صحیح بھی کہا ہے) یعلی ابن امیہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سمندر جہنم میں سے ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” احاط بہم سرادقھا “ 36:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ احنف بن قیس قناتوں میں نہ سوتا تھا اور کہتا تھا کہ سرادق کو نہیں ذکر کیا گیا مگر دوزخ والوں کے لئے۔ 37:۔ احمد، عبد بن حمید، ترمذی، ابویعلی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (آیت) ” بمآء کالمھل “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا منہ کے قریب لایا جائے گا تو چہرے کی کھال (گل کر) اس میں گرپڑے گی۔ 38:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کالمھل “ سے مراد سیاہ تلچھٹ ہے۔ 39:۔ ابن ابی شیبہ، ھناد، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے (آیت) ” کالمھل “ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا یہ غلیظ پانی ہے جیسے کی تلچھٹ۔ 40:۔ ھناد عبد بن حمید اور ابن جریر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کالمھل “ سے مراد ہے تیل کی تلچھٹ : 41:۔ عبدبن حمید، نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کالمھل “ سے مراد ہے تیل کی تلچھٹ : 42:۔ عبدبن حمید نے ابومالک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کالمھل “ سے مراد ہے تیل کی تلچھٹ۔ 43:۔ ھناد، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے (آیت) ” المھل “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے سونے اور چاندی کو منگوایا اور اس کو پگھلایا جب پگھل گیا تو فرمایا یہ ہم شکل ہے مہمل کے وہ جو دوزخ والوں کا مشروب ہوگا اس کا رنگ آسمان جیسا زنگ ہوگا سوائے اس کے دوزخ والوں کا شراب سونے چاندی سے بھی زیادہ گرم ہوگا۔ 44:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کالمھل “ سے مراد ہے پیپ اور کالا خون جیسے تیل کی تلچھٹ۔ 45:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کالمھل “ سے مراد ہے سیاہ مشروب یہ بھی سیاہ ہوگا اور اسکے پینے والے بھی سیاہ ہوں گے۔ 46:۔ ابن منذر نے خصیف (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” المھل “ تانبہ جب پگھل جائے لیکن مہمل اس تانبے سے بھی زیادہ گرم ہوگا۔ 47:۔ عبد بن حمید نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کالمھل “ سے مراد ہے چاندی کی طرح جب وہ پگھل جائے۔ 48:۔ عبدبن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کالمھل “ سے مراد ہے انتہائی گرم۔ 49:۔ ابن جریر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ کہ تم جانتے ہوں (آیت) ” المھل “ کیا چیز ہے فرمایا مہمل ایک تیل ہے یعنی اس کا آخری حصہ (جو نیچے بیٹھ جاتا ہے) اس سے مراد ہے تیل کی تلچھٹ۔ 50:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وسآءت مرتفقا “ سے مراد ہے اکٹھے ہونے کی جگہ۔ 51:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وسآءت مرتفقا “ سے مراد ہے کہ دوزخی گرم پانی پینے کے لئے جمع ہوں گے اور ” ارتفاق “ سے مراد ہے سہارا لگانے کی جگہ جس پر ٹیک لگائی جائے۔ 52:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وسآءت مرتفقا “ سے مراد ہے سہارا لگانے کی جگہ جس پر ٹیک لگائی جائے۔
Top