Dure-Mansoor - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور آپ ان سے دو شخصوں کا حال بیان کیجئے، ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دئے اور ان کو ہم نے کجھور کے درختوں سے گھیر دیا اور ان دونوں کے درمیان ہم نے کھیتی بھی اگا دی تھی
ایک مومن و کافر کا مکالمہ : 1:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے (آیت) ” جعلنا لاحدھما جنتین من اعناب “ کے بارے میں روایت کیا کہ جنت سے مراد باغ ہے اسی کا ایک باغ اور ایک دیوار تھی اور ان کے درمیان ایک نہر تھی اس لئے دو باغ فرمایا اور دیوار سے ایک ہونے کی وجہ سے ایک باغ فرمایا۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے یحییٰ بن ابوعمر والشیبانی (رح) سے روایت کیا کہ نہرابی فرطس ان دو باغوں کی نہر تھی ابن ابی حاتم نے فرمایا وہ رملہ کی مشہور نہر ہے۔ 3:۔ ابن ابی حاتم اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” اتت اکلھا ولم تظلم منہ شیئا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس کا پھل کبھی ختم نہ ہوتا تھا باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا جاتا تھا۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفجرنا خللھما نھرا “ سے مراد ہے ان کے درمیان (نہر تھی) 5:۔ ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وکان لہ ثمر “ سے مراد ہے مال۔ 6:۔ ابوعبید ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اس کو ابن عباس ؓ نے یوں پڑھا (آیت) ” وکان لہ ثمر “ ثا کے ضمہ کے ساتھ یعنی مال کی قسمیں۔ 7:۔ ابن ابی شیبہ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وکان لہ ثمر “ سے مراد ہے سونا اور چاندی۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے بشیر بن عبید (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” وکان لہ ثمر “ ثا کے رفع کے ساتھ اور فرمایا ثمر سے مراد ہے مال اولاد غلام اور ثمر سے مراد ہے پھل۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے ابویزید المدنی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” وکان لہ ثمر “ اور اس کا مطلب اصل مال اور پھل ہے۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” ودخل جنتہ وھو ظالم لنفسہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ ناشکری کرنے والا ہے اپنے رب کی نعمتوں کی۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” قال ما اظن ان تبید ھذہ ابدا “ سے مراد ہے ہلاک ہونا (آیت) ” وما اضن الساعۃ قآئمۃ ولئن “ (یعنی میں اس بات کو نہیں مانتا) کہ قیامت قائم ہوگی پھر (آیت) ” رددت الی ربی لاجدن خیرا منھا منقلبا “ (یعنی قیامت قائم ہو بھی گئی اور بفرض محال مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو میں اپنے رب کے پاس اس سے بھی بہتر پاوں گا) ۔
Top