Dure-Mansoor - Al-Kahf : 40
فَعَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَ یُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًاۙ
فَعَسٰي : وہ تو قریب رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ : کہ يُّؤْتِيَنِ : مجھے دے خَيْرًا : بہتر مِّنْ : سے جَنَّتِكَ : تیرا باغ وَيُرْسِلَ : اور بھیجے عَلَيْهَا : اس پر حُسْبَانًا : آفت مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَتُصْبِحَ : پھر وہ ہو کر رہا جائے صَعِيْدًا : مٹی کا میدان زَلَقًا : چٹیل
تو وقت نزدیک ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرما دے اور تیرے باغ پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس کی وجہ سے تیرا باغ ایک صاف میدان ہو کر رہ جائے
1:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الحسبان “ سے مراد ہے عذاب۔ 2:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے نافع بن ازرق نے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” حسبانا من السمآء “ کے بارے میں بتائیے فرمایا اس سے مراد ہے آگ پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے حسان بن ثابت ؓ کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : بقیۃ معشر صبت علیہم شابیب من الحسبان شھب : ترجمہ : باقی جماعت پر انڈیلا گیا آگ میں سخت گرمی کو جس نے ان کو جھلسادیا۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” حسبانا من السمآء “ سے مراد ہے آگ۔ 4:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فتصبح صعیدا زلقا “ یعنی بنجرزمین کی طرح۔ 5:۔ عبدالرزاق، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” حسبانا من السمآء “ سے مراد ہے عذاب (آیت) ” فتصبح صعیدا زلقا “ یعنی اس طرح وہ باغ کاٹا جائے کہ اس زمین میں کوئی چیز نہ چھوڑی گئی ہو (آیت) ” او یصبح مآوھا غورا “ یعنی (اس کا پانی) چلا گیا اور زمین میں نیچے اتر گیا (آیت) ” واحیط بثمرہ فاصبح یقلب کفیہ “ ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے (آیت) ” علی ماانفق فیھا “ افسوس کرتے ہوئے اپنے ضائع شدہ باغ پر۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” صعیدا زلقا “ سے مراد ہے پھسلنی زمین جس میں کوئی پودا نہیں اگتا (آیت) ” واحیط بثمرہ “ یعنی دونوں باغوں کا پھل تباہ و برباد ہوگیا (آیت) ” فاصبح یقلب کفیہ “ یعنی اس پر ندامت اور شرمندگی سے ہاتھ ملنے لگا (آیت) ” وھی خاویۃ علی عروشھا “ وہ گرا پڑا تھا اپنے چھپروں پر یعنی اس کے نیچے والا حصہ اوپر کردیا گیا۔ 7:۔ ابن منذر نے ضحاک (رح) سے روایت کہ (آیت) ” واحیط بثمرہ “ یعنی اللہ کے حکم نے اس کو گھیر لیا اور وہ ہلاک ہوگیا۔ 8:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولم تکن لہ فئۃ “ یعنی اس کا کنبہ نہ تھا (جو اس کو بچالیتا) ۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولم تکن لہ فئۃ “ سے مراد ہے (اس کا) کنبہ۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولم تکن لہ فئۃ “ کہ اس کا کوئی لشکر نہ تھا جو اس کی مدد کرتا (آیت) ” ینصرونہ من دون اللہ وما کان منتصرا “ یعنی روکنے والا عذاب کو۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے مبشر بن عبید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الولایۃ “ سے مراد ہے دین اور ” الوالایۃ “ کے معنی امارت کے بھی ہیں۔ 12:۔ حاکم نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) صہیب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کسی بستی میں داخل ہونا چاہتے تو اسے دیکھتے ہی یہ دعا پڑھتے : اللہم رب السموت السبع وما اظللن ورب الارضین السبع وما اقللن ورب الشیاطین وما اضللن ورب الریاح وما ذرین فانا نسئلک خیر ھذہ القریۃ وخیراھلھا ونعوذ بک من شرھا وشرمافیھا۔ ترجمہ : اے اللہ جو ساتوں آسمانوں اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو آسمانوں کے نیچے ہیں اور جو ساتوں زمینوں کا اور ان سب چیزوں کا رب ہے جو ان کے اوپر ہیں اور جو شیطانوں کا اور ان سب کا رب ہے جن کو شیطانوں نے گمراہ کیا ہے اور جو ہواوں کا اور ان سب چیزوں کا رب ہے جنہیں ہواوں نے اڑایا ہے سو ہم تجھ سے اس بستی کی اور اس کے باشندوں کی خیرکا سوال کرتے ہیں اور اس کے شر سے اور اس کے شر سے اور ان چیزوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں جو اس کے اندر ہیں۔
Top