Dure-Mansoor - Al-Kahf : 46
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا
اَلْمَالُ : مال وَالْبَنُوْنَ : اور بیٹے زِيْنَةُ : زینت الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے نزدیک ثَوَابًا : ثواب میں وَّخَيْرٌ : اور بہتر اَمَلًا : آرزو میں
مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زینت ہیں، اور باقی رہنے والے اعمال صالحہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی
1:۔ ابن ابی حاتم نے اور خطیب نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ کہا جاتا ہے کہ مال کو اس لئے مال کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں اور دنیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ قریب ہے (آخرت کے مقابلہ میں) مال واولاددنیا کی زینت ہے : 2:۔ ابن ابی حاتم نے عیاض بن عتبہ (رح) سے روایت کیا کہ اس کا بیٹا مرگیا جس کو یحییٰ کہا جاتا تھا جب وہ اسے قبر میں اتارا گیا تو اس کو ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم اگر وہ لشکر کا سردار ہوتا تو میں اسے روک لیتا تو (اس کے والد نے) کہا مجھے اس کے روکنے سے کیا چیز مانع ہے ؟ کل یہ دنیا کی زینت میں سے تھا اور آج باقی رہنے والی نیکیوں میں سے ہے۔ 3:۔ ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” المال والبنون “ مال اور بیٹے دنیا کی کھیتی ہے اور نیک عمل آخرت کی کھیتی ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے دونوں کو جمع فرمائے گا۔ 4:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والبقیت الصلحت “ سے مراد ہے ” سبحان اللہ والحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ 5:۔ سعید بن منصور، احمد، ابویعلی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے صحیح بھی کہا) ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا باقی رہنے والی نیکیوں میں سے کثرت کرو کہا گیا یارسول اللہ ﷺ وہ باقی رہنے والی نیکیاں کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تکبیر کہنا : ” لا الہ الا اللہ “ کہنا اور ” سبحان اللہ اور “ ” والحمد للہ “ کہنا اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ کہنا۔ 6:۔ سعید بن منصور، احمد اور ابن مردویہ نے نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خبردار ” سبحان اللہ والحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ الباقیات الصالحات میں سے ہیں۔ دوزخ سے نجات پانے والے کلمات : 7:۔ نسائی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی نے صغیر میں، حاکم ابن مردویہ اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح بھی کہا) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی اپنی ڈھال پکڑو پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ کیا دشمن کے خلاف جو حاضر ہوچکا ہے فرمایا نہیں بلکہ دوزخ کی آگ سے بچاؤ کے لئے اپنی ڈھال پکڑو تم ” سبحان اللہ والحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ کیونکہ یہ (کلمات) قیامت کے دن آئیں گے مقدمات (یعنی آگے سے) معقبات (یعنی پیچھے سے) اور محسنات (یعنی نیکیاں بن کر) اور یہ باقیات صالحات ہیں۔ 8:۔ طبرانی، ابن شاہین نے ترغیب فی الذکر میں اور ابن مردویہ نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” سبحان اللہ والحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ “ (یہ کلمات) باقیات صالحات ہیں اور یہ نیکیاں گرا دیتی ہیں گناہوں کو جیسے درخت گرا دیتا ہے اپنے پتوں کو اور یہ جنت کے خزانوں میں سے ہیں۔ 9:۔ ابن مردویہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک خشک درخت کے پاس سے گذرے اس کی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی کو پکڑ کر حرکت دی تو اس کے سارے پتے گرگئے آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے ” سبحان اللہ والحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں اس کے کہنے والے سے جیسے اس درخت سے پتے جھڑگئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ” الباقیات الصالحات “ (یعنی باقی رہنے والی نیکیاں) 10:۔ احمد نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ ” سبحان اللہ والحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جیسے درخت اپنے پتوں کو جھاڑ دیتا ہے۔ 11:۔ ابن ابی شیبہ، مسلم، نسائی اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کلام میں سے سب سے زیادہ محبوب کلام ” الحمدللہ، سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ یہ چار کلمات ہیں پس تو ان کی کثرت کر اور تجھے کوئی ضرر نہیں کہ جس کلمہ کے ساتھ بھی تو شروع کرے۔ 12:۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم عاجز ہو راتوں کو اٹھ کر محنت کرنے سے اور دشمن سے جہاد کرنے سے تو (یہ کلمات) کہنے سے عاجز نہ بنوں ” سبحان اللہ والحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ کیونکہ یہ الباقیات الصالحات ہیں۔ 13:۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ سے بچاؤ کے لئے ڈھال لے لو تم کہو ” سبحان اللہ والحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ کیونکہ (یہ کلمات) آگے آنے والے پیچھے آنے والے اور نجات دینے والے ہیں اور یہ الباقیات الصالحات ہیں۔ 14:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ سے ایک دن فرمایا اپنی اپنی ڈھال کو لے لو دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا صحابہ ؓ نے عرض کیا دشمن جو پہنچ چکا ہے ؟ فرمایا نہیں بلکہ آگ سے بچاؤ کے لئے کہو تم ” سبحان اللہ والحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ “ کیونکہ (یہ کلمات) قیامت کے دن آئیں گے مقدمات بن کر محسنات بن کر اور موخرات بن کر اور یہ ” الباقیات الصالحات “ ہیں۔ 15:۔ ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا الباقیات الصالحات “ یہ ہیں جو شخص یہ (کلمات) کہے ” لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر، سبحان اللہ والحمد للہ “ لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ 16:۔ ابن مردویہ نے ضحاک (رح) کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم کو رات قیام سے روک دے اور تم (عبادت کے لئے) کھڑے نہ ہو سکو اور تم عاجز ہوجاؤ دن میں اور تم روزے بھی نہ رکھ سکو اور تم مال میں بخیل بن جاؤ اور خرچ نہ کرو اور تم بزدل ہوجاؤ دشمن سے کہ جہاد نہ کرسکو تو کثرت کرو ” سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر کی۔ 17:۔ طبرانی نے سعد بن عبادہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہو کر مسلمان ہوگیا اور آپ نے مجھ کو سکھایا ” قل ھو اللہ احد “ ، اذا زلزلت الارض اور قل یایھا الکفرون “ اور مجھے یہ کلمات سکھائے ” سبحان اللہ، والحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر،۔ 18۔ احمد، ابن جریر، اور ابن منذر نے عثمان بن عفان ؓ سے روایت کیا کہ ان سے (آیت) ” والبقیت الصلحت “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ یہ ہیں۔ ” لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر، سبحان اللہ والحمد للہ “ لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ 19:۔ بخاری نے تاریخ میں اور ابن جریر نے ابن عمر ؓ سے ” والبقیت الصلحت “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا (وہ یہ ہیں) ” لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر، سبحان اللہ والحمد للہ “ لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ 20:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ (آیت) ” والبقیت الصلحت “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ” لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر، سبحان اللہ والحمد للہ، تبارک اللہ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ، استغفر اللہ، و صلی اللہ علی محمد، رسول اللہ، نماز، روزہ، حج، صدقہ، آزاد کرنا، (غلام کا) جہاد اور صلہ رحمی اور سارے نیک اعمال اور یہ (آیت) ” والبقیت الصلحت “ ہیں جو اپنے پڑھنے والوں کے لئے جنت میں باقی رہیں گی۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ اور احمد نے زہد میں سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ ہم سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان پر سکتہ طاری ہوگیا پھر فرمایا میں نے اپنی خاموشی میں یہ (کلمات) کہے ہیں جو نیل اور فرات کی سیرابی سے بہتر ہیں ہم نے ان سے عرض کیا آپ نے کیا (کلمات) کہے ہیں ؟ فرمایا میں نے کہا ” لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر، سبحان اللہ والحمد للہ “۔ 22:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والبقیت الصلحت “ سے مراد ہے پاکیزہ کلام۔ 23:۔ ابن ابی شیبہ نے نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگ اللہ کے جلال کی وجہ سے اس کی تسبیح، اس کی تحمید، اس کی تکبیر اور اس کی تہلیل کرتے ہیں (یہ کلمات) عرش کے اردگرد چکر لگاتے ہیں ان کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح اپنے پڑھنے والوں کا ذکر کرتی ہیں کیا تم میں سے اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ رحمان کے پاس ہمیشہ کوئی چیز ایسی ہو جو اس کا ذکر کرتی رہے۔ 24:۔ ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میں قرآن مجید یاد نہیں کرسکتا اور آپ سے ایسی چیز کا سوال کرتا ہوں جو قرآن کے بدلے کافی ہوجائے آپ نے اس سے فرمایا تو (یہ کلمات) کہا کر ” سبحان اللہ الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر، ، اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ فرشتوں کے محبوب کلمات : 25:۔ ابن ابی شیبہ اور مسلم نے موسیٰ بن طلحہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چند کلمات ایسے ہیں ان کو جب بندہ کہتا ہے تو فرشتہ ان کو اپنے پروں پر رکھ لیتا ہے پھر ان کو لے کر اوپر جاتا ہے تو فرشتوں کی جس جماعت پر سے گذرتا ہے تو ان کلمات پرا ور ان کے کہنے والے پر صلاۃ بھیجتے ہیں یہاں تک کہ یہ کلمات رحمان کے سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں (وہ کلمات یہ ہیں) ’ سبحان اللہ الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر، ، اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کو ہر مصیبت اور برائی سے بچا لیتا ہے۔ 26:۔ ابن ابی شیبہ نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے نیند میں دیکھا کہ ایک پکارنے والا آسمان میں سے پکار رہا ہے اے لوگو اپنی گھبراہٹ کا ہتھیار لے لو لوگوں نے ہتھیار لے لئے یہاں تک کہ ایک آدمی آیا اور اس کے ساتھ لاٹھی ہوگی تو ایک آواز لگانے والا آسمان سے آواز لگائے گا یہ تمہاری گھبراہٹ کا سامان نہیں ہے اس زمین والے شخص نے کہا ہماری گھبراہٹ کا ہتھیار کیا ہے تو اس نے کہا ’ سبحان اللہ الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “۔ 27:۔ ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں (یہ کلمات) کہوں ’ سبحان اللہ الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “۔ مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہیں کہ میں اتنی تعداد میں تیر صدقہ کروں۔ 28:۔ ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا کہ میرے نزدیک ’ سبحان اللہ الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ اس سے زیادہ محبوب ہیں کہ میں اتنی مقدار میں گھوڑوں پر اس کی رسیوں کے ساتھ مجاہدین کو سوار کروں۔ 29:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے اپنی طرف سے (آیت) ” الحمد للہ رب العلمین “ کہا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے تیس نیکیاں لکھ دیتے ہیں اور اس سے تیس برائیاں مٹا دیتے ہیں اور جس نے کہا اللہ اکبر تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بیس نیکیاں لکھ دیتے ہیں اور اس سے بیس برائیاں مٹا دیتے ہیں۔ اور جس نے کہا ” الا الہ الا اللہ “ تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بیس نیکیاں لکھ دیتے ہیں اور اس سے بیس برائیاں مٹا دیتے ہیں۔ 30:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والبقیت الصلحت “ (ھود آیت : 114) اور (آیت) ” ان الحسنت یذھبن السیئت “ سے مراد پانچ نمازیں ہیں۔ 31:۔ ابن منذر، ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے (آیت) ” والبقیت الصلحت “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہر وہ چیز اللہ کی اطاعت میں سے وہ باقیات الصالحات ہے۔ 32:۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ان سے (آیت) ” والبقیت الصلحت “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا وہ عبادت جس سے اللہ کی رضا مندی کا ارادہ کیا گیا ہو وہ (آیت) ” والبقیت الصلحت “ ہے۔ 33:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” خیر عند ربک ثوابا “ سے مراد ہے کہ مشرکین کی جزاء سے بہتر جزاء۔ 34:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ نے فرمایا (آیت) ” وخیراملا “ سے مراد ہے کہ ہر عامل کے لئے ایک امید ہے جو وہ اس کی امید کرتا ہے اور مومن لوگوں میں سب سے بہتر ہے امید کے لحاظ سے۔ 35:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وتری الارض بارزۃ “ سے مراد ایسی زمین ہے جس میں کوئی آبادی نہ ہو اور نہ کوئی علامت ہو۔ 36:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا (آیت) ” وتری الارض بارزۃ “ سے مراد ایسی زمین ہے جس میں نہ کوئی عمارت ہو اور نہ اس پر کوئی درخت ہو۔ 37:۔ ابن مندہ نے توحید میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آوازدیں گے اے میرے بندو میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی اللہ نہیں ہیں میں سب رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہوں اور تمام حکم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ حکم کرنے والا ہوں اور حساب کرنے والوں میں سے سب سے جلدی حساب کرنے والا ہوں اپنی حجتوں کو پیش کرو اور جواب کو آسان کرو کیونکہ تم سے باز پرس ہوگی اور محاسبہ ہوگا اے میرے ملائکہ میرے بندوں کے قدموں کے پوروں کے اطراف پر حساب کے لئے سیدھا کھڑا کردو صفوں میں۔
Top