Dure-Mansoor - Al-Kahf : 53
وَ رَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَ لَمْ یَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا۠   ۧ
وَرَاَ : اور دیکھیں گے الْمُجْرِمُوْنَ : مجرم (جمع) النَّارَ : آگ فَظَنُّوْٓا : تو وہ سمجھ جائیں گے اَنَّهُمْ : کہ وہ مُّوَاقِعُوْهَا : گرنے والے ہیں اس میں وَلَمْ يَجِدُوْا : اور وہ نہ پائیں گے عَنْهَا : اس سے مَصْرِفًا : کوئی راہ
اور مجرم لوگ دوزخ کو دیکھیں گے پھر یقین کرلیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں۔ اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔
1:۔ عبدالرزاق ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فظنوا انہم مواقعوھا “ یعنی انہوں نے جان لیا (کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں ) 2:۔ احمد ابو یعلی ابن جریر ابن حبان حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کافر کا پچاس ہزار سال کھڑا رکھا جائے گا جیسے اس نے اس دنیا میں کوئی عمل نہیں کیا اور وہ جہنم دیکھے گا اور چالیس بس کی مسافت سے بھی یوں محسوس کرے گا کہ وہ دوزخ میں بھی گرا۔ 3:۔ بخاری، مسلم، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ اس کے اور فاطمہ ؓ کے پاس رات کے وقت تشریف لائے اور فرمایا کیا تم (تہجد کی) نماز نہیں پڑھتے ہو ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں اگر ہم کو اٹھانا چاہتے ہیں تو ہم اٹھ جاتے ہیں جب میں نے یہ کہا تو آپ واپس تشریف لے گئے اور آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا پھر میں نے سنا کہ آپ اپنی ران مبارک کو مارتے ہوئے یہ ارشاد فرما رہے تھے (آیت) ” وکان الانسان اکثر شیء جدلا “۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے (آیت) ” وکان الانسان اکثر شیء جدلا “ کے بارے میں فرمایا کہ جدل سے مراد ہے جھگڑا کرنا اپنے انبیاء سے قوم کا جھگڑا کرنا اور ان کا رد کرنا (اس دین کو) جو وہ لے کر آئے اور قرآن میں جدل کا لفظ جہاں بھی استعمال ہوا ہے وہ اسی معنی میں ہے۔
Top